محترم قارئین کرام! اس وقت رشد کا تیسرا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں پہلا مضمون ’’غیر سودی بینکاری: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘کے عنوان سے ہے کہ جسے راقم نے مرتب کیا ہے۔ اسلامک بینکنگ یا غیر سودی بینکاری عصر حاضرکے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ اس وقت پاکستان میں غیر سودی بینکاری کے حوالے سے تین حلقے پائے جاتے ہیں۔ ایک حلقہ تو ان اہل علم کا ہے جو غیر سودی بینکاری کو جائز قرار دیتے ہیں اور دوسرا حلقہ ان علماء کا ہےجو غیر سودی بینکاری کو حرام کہتے ہیں۔ اب جو غیر سودی بینکاری کو حرام بتلاتے ہیں، ان میں بھی دو گروہ ہیں۔ ایک طبقے کا کہنا یہ ہے کہ غیر سودی بینکاری اپنے طریقہ کار میں غلط ہے، اگر اس کا طریقہ کار درست کر لیا جائے تو یہ جائز ہو جائے گی جبکہ دوسرے طبقے کا کہنا یہ ہے کہ غیر سودی بینکاری کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ بینک کا ادارہ تجارت اور بزنس کے مقصد سے بنایا ہی نہیں گیا بلکہ بینک کا اصل کام تمویل اور فنانسنگ ہے۔ پس اسلامی تجارت کے باب میں بینک سے کسی قسم کی خیر کی امید رکھنا عبث اور بے کار ہے۔ اس مقالہ میں تینوں قسم کے گروہوں کے موقف کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ شمارے میں دوسرے مقالے کا موضوع ’’استدراکات صحابہ کی نوعیت اور تحقیقی مطالعہ‘‘ ہے۔ احادیث رسول ﷺ کی فنی تحقیق میں روایت کے علاوہ ایک اور اصطلاح درایت بھی استعمال ہوتی ہے۔ محدثین کے نزدیک درایت کا معنی حدیث کی صحت کو اس کی سند اور راویوں کی عدالت کے علاوہ اس کے متن میں موجود علل اور شذوذ کے اعتبار سے بھی پرکھنا ہے۔ یہ درایت کا روایتی تصور ہے جبکہ درایت کا جدید تصور یہ ہے کہ جو حدیث آپ کو قرآن مجید اور عقل عام کے خلاف معلوم ہو تو اس کو مردود قرار دے دیں۔ اور قرآن مجید سے مراد ناقد کا اپنا فہم قرآن جبکہ عقل عام سے مراد ناقد کی اپنی عقل ہوتی ہے۔ درایت کے اس جدید تصور کو برصغیر پاک وہند میں مولانا تقی امینی اور عرب دنیا میں شیخ محمد الغزالی نے پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں مقالہ نگار نے مولانا تقی امینی کے تصور درایت کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ تیسرے مقالے کا موضوع ’’تفسیر قرآن بذریعہ نظم قرآن اور مولانا فراہی کے تفسیری تفردات‘‘ ہے۔ مولانا فراہی نے برصغیر پاک وہند میں قرآن فہمی کے ایک مستقل مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی کہ جس کا اصل الاصول نظم قرآن ہے۔ مولانا فراہی قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح میں نظم قرآن مجید کو روایات اور احادیث پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس مقالہ میں مولانا فراہی کے چند ایک ایسے تفسیری تفردات پر بحث کی گئی ہے کہ جن میں انہوں نے روایت کو ترک کیا ہے اور اپنے فہم سے حاصل شدہ نظم قرآن کو بنیاد بنا کر ایک نئی تفسیر پیش کی ہے کہ جس تفسیری رائے کا اظہار ان سے پہلے کسی مفسر نے نہیں کیا ہے۔ مقالہ میں جمہور مفسرین کے روایتی مکتبہ تفسیر اور مولانا فراہی کی تفسیر کے منتخبات کا تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے اور راجح تفسیر کی طرف رہنمائی بھی کی گئی ہے۔ چوتھا مقالہ ’’السنۃ بین اہل الفقہ واہل الحدیث: شیخ محمد الغزالی کی تصنیف کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ شیخ محمد الغزالی ایک مصری عالم دین ہیں کہ جنہوں نے اپنی کتاب ’’السنۃ بین اہل الفقہ واہل الحدیث‘‘ میں محدثین کے تحقیق حدیث کے معیارات پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کے جواب میں عالم عرب میں محدثین کے تحقیق حدیث کے معیارات کے دفاع میں کئی ایک کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔ اس مقالے میں شیخ محمد الغزالی اور ان کے ناقدین میں سے شیخ فہد بن سلمان العودۃ، شیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ اور شیخ ربیع بن ھادی المدخلی کی تحریروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ شیخ محمد الغزالی کی محدثین کے معیار تحقیق پر کی گئی تنقید متوازن نہیں ہے۔ ( ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)