ششماہی رشد ، جلد نمبر 11 ، شمارہ نمبر 4 ، جولائی 2015ء

  • صفحات: 128
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 3200 (PKR)
(جمعہ 11 نومبر 2016ء) ناشر : لاہور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل سائنسز، لاہور

محترم قارئین کرام!اس وقت رُشد کا چوتھا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں پہلا مضمون ’’اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ عصر حاضر میں علمی حلقوں میں اجتماعی اجتہاد کا کافی چرچا ہے اور راقم نے اس موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ’’عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ پنجاب یونیورسٹی سے 2012ء میں مکمل کیا تھا۔ عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے مناہج اور اسالیب کیا ہوں گے؟ اس بارے اہل علم میں کافی ابحاث موجود ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اجتماعی اجتہاد، پارلیمنٹ کے ذریعے ہونا چاہیے تو بعض علماء کی رائے ہے کہ اجتماعی اجتہاد کا بہترین طریق کار شورائی اجتہاد ہے کہ جس میں علماء کی باہمی مشاورت کے نتیجے میں ایک علمی رائے کا اظہار کیا جائے۔ اس مقالے میں اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کے نقطہ نظر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے کہ یہ نقطہ نظر کس حد تک کارآمد اور مفید ہے۔
دوسرا مقالہ ’’علم حدیث اور علم فقہ کا باہمی تعلق اور تقابل‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ علم حدیث اور علم فقہ دو مستقل علوم شمار ہوتے ہیں اور دونوں کی اپنی کتابیں، مصادر، موضوعات، مصطلحات، اصول، مقاصد، ماہرین فن، طبقات اور رجال کار ہیں۔ اس مقالہ میں بتلایا گیا ہے کہ علم حدیث کا مقصد روایت کی تحقیق ہے اور یہ محدثین کا میدان ہے اور علم فقہ کا مقصد روایت کا فہم ہے اور یہ فقہاء کا میدان ہے۔ روایت کی تحقیق میں اہل فن یعنی محدثین پر اعتماد کرنا چاہیے اور روایت کے فہم میں اہل فن یعنی فقہاء پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہی اعتدال کا راستہ ہے۔ جس طرح کسی محدث کے لیے یہ طعن نہیں ہے کہ وہ فقیہ نہیں ہے، اسی طرح کسی فقیہ کے لیے یہ طعن نہیں ہے کہ وہ محدث نہیں ہے۔ محدثین کسی روایت کے قطعی الثبوت یا ظنی الثبوت ہونے سے بحث کرتے ہیں اور فقہاء کسی روایت کے قطعی الدلالۃ یا ظنی الدلالۃ ہونے کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ تیسرا مقالہ ’’تحقیق حدیث میں عقلی درایتی اصولوں کا قیام: محدثین کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ حدیث کی تحقیق میں روایت اور درایت دو اہم اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ روایت کا تعلق سند اور درایت کا متن سے ہے۔ محدثین عظام نے حدیث کی تحقیق روایتاً اور درایتاً دونوں طرح سے کی ہے اگرچہ بعض معاصر اسکالرز کا یہ دعوی ہے کہ حدیث کی تحقیق روایتاً تو ہوئی ہے لیکن درایتاً نہیں ہوئی جبکہ مقالہ نگار کے نزدیک یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ بعض معاصر اسکالرز حدیث کی تحقیق کے لیے جن درایتی اصولوں کو پیش کرتے ہیں وہ محدثین کے درایتی اصول نہیں ہیں۔ محدثین کے نزدیک حدیث کے مردود ہونے کہ وجوہات وہی ہیں، جنہیں اصول حدیث کی کتابوں میں بیان کر دیا گیا ہے لیکن کسی حدیث کا خلاف قرآن یا خلاف عقل ہونا اس کے مردود ہونے کی وجہ تو نہیں البتہ علامات و قرائن میں سے ضرور ہے۔ پس ایسی احادیث جو کہ حدیث کی اُمہات الکتب میں نہ ہوں، اور وہ خلافِ قرآن ہوں یا خلافِ عقل ہوں تو وہ مردود ہوں گی لیکن ان کے مردود ہونے کہ وجہ ان کی سند کا مردود ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہوتی۔ مقالہ نگار کا کہنا یہ ہے کہ معاصر درایتی فکر میں صحیح سند سے ثابت شدہ روایات یہاں تک کہ صحیحین کی روایات تک خلاف قرآن اور خلاف عقل ہونے کی وجہ سے مردود قرار پاتی ہیں لیکن ان کے خلاف قرآن ہونے سے مراد، روایت کا اسکالر کے فہم قرآن کے خلاف ہونا ہوتا ہے اور ان کے خلاف عقل سے مراد، تمام انسانوں کی عقل نہیں بلکہ اسکالر کی اپنی عقل کے خلاف ہونا ہوتا ہے لہٰذا اَمر واقعی یہی ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث کہ جسے محدثین نے صحیح قرار دیا ہو، کبھی بھی قرآن مجید یا عقل کے خلاف نہیں ہوتی ہے البتہ بعض ناقدین کو وہ خلاف قرآن یا خلاف عقل محسوس ہو سکتی ہے۔  چوتھا مقالہ ’’فقہاء اور ائمہ محدثین کا تصور اجماع: ایک تقابلی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ متقدمین اہل علم کے نزدیک الفاظ کی نسبت تصورات اور معانی کی زیادہ اہمیت تھی لہٰذا وہ کسی بھی تصور دین کی وضاحت میں اس کے لغوی معنی میں، عرفی معنی کو شامل کر کے اس کی وضاحت کر دیتے تھے لیکن متاخرین کا منہج یہ ہے کہ وہ منطق کے استعمال کے زیر اثر ہر مصطلح کی فنی تعریف کو جامع ومانع بنانے کے لیے شروط وقیود کے بیان میں پڑ جاتے ہیں اور پھر اس مصطلح کی درجن بھر تعریفات تیار کر کے ان میں سے ہر ایک پر اعتراضات کی ایک لمبی چوڑی فہرست بھی قائم کر دیتے ہیں۔ امام مالک ﷫ کا اجماع کا تصور یہ ہے کہ صحابہ کے زمانے سے اہل مدینہ کا جو عرف منقول چلا آ رہا ہے، وہ روایت ہونے کی وجہ سے حجت ہے جبکہ اہل مدینہ کے اجتہاد واستنباط کو امام مالک ﷫ اجماع کا درجہ نہیں دیتے ہیں۔ امام شافعی ﷫ کا کہنا یہ ہے کہ اجماع ضروریات دین میں ہوتا ہے نہ کہ فروعات میں۔ اور امام صاحب کے نزدیک اجماعی مسائل سے مراد وہ مسائل ہیں کہ جن میں کسی عالم دین کا اختلاف کرنا ممکن نہ ہو جیسا کہ پانچ وقت کی نمازیں اور رمضان کے روزے وغیرہ۔ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری ﷭ کے نزدیک اجماع سے مراد اہل حق علماء کی جماعت کی معروف رائے ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ امام بخاری ﷫ کے نزدیک اجماع سے مراد منہج استدلال اور طریق استنباط میں اہل حق علماء کی عرفی رائے ہے۔  پانچواں مقالہ امریکی سیاہ فام مصنفہ اور سماجی کارکن بیل ہکس کی معروف کتاب ’’Feminism is for Everybody: Passionate Politics‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ ہکس کی مذکورہ کتاب بنیادی طور پر ان مشکلات کے بیان پر مبنی ہے جن کا سامنا تحریک برائے حقوقِ نسواں، اس سے وابستہ خواتین، اور خصوصاً سیاہ فام خواتین کو کرنا پڑا۔ ہکس کی کتاب اپنے موضوع پر صف اول کی بہترین کتب میں شمار ہوتی ہے اور تحریک نسواں کے بنیادی خدوخال جاننے کے لیے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب پر تبصرہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک نسواں کی تحریک کا آغاز تو عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے ہوا تھا لیکن اب وہ مردوں سے نفرت کے اظہار کی ایک تحریک بن چکی ہے جو کہ ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے۔(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)

فیس بک تبصرے

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 84385
  • اس ہفتے کے قارئین 118213
  • اس ماہ کے قارئین 1734940
  • کل قارئین111056378
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست