اللہ تعالیٰ نے امت ِاسلامیہ میں چند ایسے افراد پیدا کیے جنہوں نے دانشمندی ، جرأت بہادری اور لازوال قربانیوں سے ایسی تاریخ رقم کی کہ تاقیامت ا ن کے کارنامے لکھے اور پڑھے جاتے رہے ہیں گے تاکہ افرادِ امت میں تازہ ولولہ اور جذبۂ قربانی زندہ رہے۔ آج مغرب سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ مسلمان ممالک کے لیے ایسی تعلیمی نصاب مرتب کیے جائیں جوان ہیروز اور آئیڈیل افراد کے تذکرہ سے خالی ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نوجوان پھر سےوہی سبق پڑھنے لگیں جس پر عمل پیرا ہو کر اسلامی رہنماؤں نے عالمِ کفر کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کردیا تھا۔ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں غیر مسلموں (ہندوؤں،عیسائیوں ،یہودیوں) کے کارنامے تو بڑے فخر سے پڑھائے جارہے ہیں مگر دینی تعلیمات او رااسلامی ہیروز کے تذکرے کو نصاب سے نکال باہر کیا جارہا ہے ۔ سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سید نا عمر فاروق کے اسلام لانے اور بعد کے حالات احوال اور ان کی عدل انصاف پر مبنی حکمرانی سے اگاہی کے لیے مختلف اہل علم اور مؤرخین نے کتب تصنیف کی ہیں۔اردو زبان میں شبلی نعمانی ، ڈاکٹر صلابی ، محمد حسین ہیکل ،مولانا عبد المالک مجاہد(ڈائریکٹر دار السلام) وغیرہ کی کتب قابل ذکر ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’ سیرت عمر فاروق ‘‘ محترم محمد رضاکی تصنیف ہے جوکہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطاب کی سیرت اورکارناموں پر مشتمل ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر فاروقہوتے ‘‘ آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود بائیس لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ غیر مسلم دانشور یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ایک عمر او رپیدا ہوجاتا تو دنیا میں کوئی کافر باقی نہ رہتا۔ اللہ تعالی مصنف ،مترجم ،ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔اور تمام اہل اسلام کو صحابہ کرام کی طر ح زندگی بسر کرنے کی توفیق اور عالم اسلام کے حکمرانوں کو سیدنا عمر فاروق کے نقشے قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
عرض ناشر |
|
8 |
مقدمۃ المحقق |
|
9 |
مقدمہ |
|
15 |
حیات عمر بن خطاب |
|
20 |
آپ کا نسب اور تاریخ پیدائش |
|
22 |
عمر فاروق کی اولاد اور ازواج |
|
22 |
دور جاہلیت میں عمر کا گھر |
|
23 |
دور جاہلیت میں آپ کا مقام و مرتبہ |
|
23 |
آپ کا حلیہ |
|
23 |
عمر فاروق کا اسلام قبول کرنا |
|
24 |
ظہور اسلام |
|
33 |
آپ کے لقب فاروق کی وجہ تسمیہ |
|
34 |
عمر کی ہجرت مدینہ |
|
35 |
اپنی لخت جگر ؓ کی رسول اللہ ﷺ سے شادی کرنا |
|
38 |
عمر کا خلیفہ بننا |
|
39 |
عمر کی عفت |
|
40 |
آپ کےلیے امیر المومنین کا لقب |
|
45 |
عمر فاروق کے کارنامے |
|
46 |
مسجد نبوی کی توسیع |
|
47 |
مسجد حرام کی توسیع |
|
50 |
آپ کی نرمی اورسختی |
|
51 |
عمر کا اپنی اہلیہ کے لیے ہدیہ قبول نہ کرنا |
|
53 |
عمر کا ذکر الہٰی اور تلاوت قرآن سے متاثر ہونا |
|
53 |
عمر کی دعا |
|
54 |
عمر فاروق سے شیطان کا ڈرنا |
|
54 |
عمر کی فضیلت |
|
55 |
آپ کاستر پوشی کرنا اور عزت کا دفاع کرنا |
|
56 |
عمر کا رات کے وقت گشت کرنا |
|
58 |
دیوان مرتب کرنا |
|
61 |
دیوان کی وجہ تسمیہ |
|
63 |
صدقات ، مال فے اور مال غنیمت |
|
64 |
عطیات کی تقسیم میں ابوبکر کی رائے |
|
66 |
عمر کی رائے |
|
66 |
ام المومنین زینب ؓ اپنا عطیہ تقسیم کر دیتیں |
|
66 |
عمر نے چھوٹے بچوں کےلیے وظیفہ مقرر کیا |
|
67 |
عمر کی شہادت |
|
68 |
مختلف ممالک میں عمال کا تقرر |
|
68 |
قاضیوں کا تقرر |
|
69 |
عمر کی اپنے بیٹے کو وصیت |
|
69 |
عمرفاروق کی کرامات |
|
71 |
عمر بن خطاب کی وفات پر تعریفی کلمات |
|
72 |
عمر کے بارے میں مستشرقین کی آراء |
|
74 |
عمر فاروق کے بعض خطبے |
|
76 |
پہلا خطبہ |
|
76 |
دوسرا خطبہ |
|
76 |
تیسرا خطبہ |
|
77 |
چوتھا خطبہ |
|
79 |
پانچواں خطبہ |
|
81 |
عمر کا قضا سے متعلق شریح کو خط |
|
82 |
قضا سے متعلق عمر کا ابو موسیٰ اشعری کے نام خط |
|
82 |
عمر کی ابو موسیٰ اشعری کے نام خط میں وصیت |
|
83 |
عمر کے اقوال زریں |
|
85 |
عمر بن خطاب کی خلافت |
|
95 |
آپ کا پہلا کارنامہ ابو عبیدہ اور مثنیٰ کی زیر قیادت عراق کی طرف لشکر کشی |
|
95 |
معرکۂ نمارق ض |
|
97 |
معرکہ جسر |
|
97 |
مسلمانوں کی ہزیمن کے اسباب |
|
100 |
الیس صغری |
|
101 |
معرکہ بویب |
|
102 |
سوق خنانس اور سوق بغداد |
|
106 |
ملک شام کاتعارف |
|
106 |
شام کی فضا |
|
108 |
شام کی پیداوار |
|
109 |
نہریں اور دریا |
|
109 |
قبل از اسلام شام کے متعلق تاریخ عرب |
|
112 |
شام کی لڑائی |
|
113 |
دمشق کا محاصرہ |
|
116 |
ابان کی زوجہ کا مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرنا |
|
120 |
رومیوں کا شب خون مارنا |
|
122 |
صلح کے متعلق بات چیت |
|
124 |
ابو عبیدہ کا سن 14ہجری میں دمشق میں داخل ہونا |
|
125 |
معرکہ فحل |
|
127 |
اہل دمشق کا ابو عبیدہ کے نام خط یززجرد کی فارس پر تخت نشینی ، معرکہ قادسیہ |
|
130 |
فوجی بھرتی |
|
131 |
عمر کا بذات خود عراق جانے کے لیے تیار ہونا |
|
132 |
عام رائے |
|
132 |
خاص رائے |
|
133 |
سعد بن ابی وقاص کا انتخاب |
|
134 |
عمر کی سعد بن ابی وقاص کو وصیت |
|
134 |
مثنیٰ کی وفات |
|
136 |
مثنیٰ کی سعد بن ابی وقاص کو وصیت |
|
138 |
مسلمانوں کےلشکروں کی ترتیب |
|
139 |
عمر بن خطاب اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان مراسلت |
|
140 |
میدان قتال |
|
142 |
یزد جرد کا قتال کی جلدی کرنا |
143 |
|
مسلمانوں کا وفد یزد جرد کو دعوت اسلام دینے جاتا ہے |
|
144 |
لشکر رستم کی روانگی |
|
149 |
سعد کا اپنے لشکر کو قتال سے روکنا |
|
150 |
طلیحہ کی جرات |
|
151 |
رستم قتال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے |
|
152 |
فارسی نہر عبور کرتے ہیں |
|
158 |
لڑائی کی تیاری |
|
159 |
سعد کا بیمار ہو جانا |
|
160 |
خطبہ سعد |
|
160 |
عاصم بن عمرو کا خطبہ |
|
161 |
یوم ارمات ، معرکہ قادسیہ کا پہلا دن |
|
163 |
ہاتھی |
|
164 |
سعد کی اہلیہ سلمیٰ کا ا نہیں ملامت کرنا |
|
166 |
یوم اغواث ( معرکہ قادسیہ کا دوسرا روز ) |
|
167 |
ابو محجن ثقفی قید سے نکل کر میدان قتال میں |
|
170 |
یوم عماس ( معرکہ قادسیہ کا تیسرا روز ) |
|
174 |
ہاتھوں کا فرار ہونا |
|
175 |
شب ہریر یا شب قادسیہ |
|
177 |
لڑائی کے نقصانات |
|
181 |
مسلمانوں کی فتح کی اہمیت |
|
182 |
قادسیہ کے بعد فتح مدائن |
|
183 |
یوم برس |
|
183 |
یوم بابل |
|
183 |
مدائن کی فتح |
|
184 |
ایوان کسریٰ |
|
186 |
مسلمانوں کا مال غنیمت |
|
187 |
معرکہ جلولاء |
|
190 |
تکریت اور موصل کی فتح |
|
193 |
فتح ماسبذان |
|
194 |
فتح قرقیسیاء |
|
195 |
تاریخ ہجری |
|
199 |
بصرہ کی تعمیر |
|
200 |
کوفہ کی تعمیر |
|
201 |
معرکہ حمص |
|
203 |
فتح جزیرہ |
|
205 |
فتح ارمینیہ |
|
206 |
عمر کی شام کی طرف روانگی |
|
207 |
معرکہ قنسرین |
|
209 |
انطاکیہ کی فتح |
|
209 |
معرکہ مرج الروم |
|
210 |
قیساریہ کی فتح |
|
211 |
بیسان کی فتح اور اجنادین کا واقعہ |
|
211 |
عمرو بن عاص کی حیلہ سازی |
|
213 |
عمر بن خطاب کا شام کی طرف روانہ ہونا |
|
215 |
بیت ا لمقدس کی فتح |
|
216 |
عمر کی ملک شام آمد |
|
225 |
عمر فاروق کا لشکر کو خطاب |
|
225 |
عمر کی تواضع اور سا دگی |
|
227 |
عمر کا بطریق کی طرف جانا |
|
228 |
عمر فاروق کا بیت المقدس میں تشریف لے جانا |
|
229 |
بیت المقدس والوں کے لیے عہد |
|
230 |
حلب شہر کی فتح |
|
233 |
فتح عزاز |
|
236 |
معرہ اور دیگر شہروں کی فتح |
|
237 |
قحط کا سال |
|
237 |
بارش کے لیے درخواست |
|
238 |
طاعون عمواس |
|
241 |
ابو عبیدہ بن جراح کی وفات |
|
243 |
معاذ بن جبل کی وفات |
|
247 |
یزید بن ابو سفیان کی وفات |
|
250 |
شرحبیل بن حسنہ کی وفات |
|
251 |
طاعون عمواس کے بعد عمر کی شام روانگی |
|
253 |
شام وعراق میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب |
|
254 |
مصر کی فتح |
|
258 |
معرکہ عین شمس |
|
262 |
بابلیوں قلعے کی فتح |
|
264 |
صلح کے لیے مذاکرات |
|
266 |
قلعہ بابلیوں کی فتح پرواشنجتوں کی رائے اور مناقشہ |
274 |
|
عمرو بن عاص کا امیر المومنین کو مصر کا تعارف کرانا |
|
277 |
صلح کی شروط |
|
278 |
اسکندریہ کی طرف روانگی اور اس کی فتح |
|
280 |
قسطاط عمرو |
|
281 |
عمر بن خطاب کو فتح اسکندریہ کی خبر پہنچانے کے لیے معاویہ بن خدیج کی روانگی |
|
288 |
دمیاط کی فتح |
|
290 |
عروس نیل |
|
291 |
اسکندریہ کی لائبریری آگ کی لپیٹ میں |
|
294 |
بحرین سے فارس کی لڑائی |
|
297 |
قدامہ کی معزولی |
|
297 |
اہواز کی فتح او رہرمزان کی شکست |
|
301 |
ہرمزان کی صلح |
|
304 |
بصرہ کے لشکر کا وفد عمر کی خدمت میں |
|
305 |
یزدجرد کا مسلمانوں سے قتال کے لیےدوبارہ نکلنا ،ہرمزان کی اسیری ہرمزان کی بطور قیدی مدینہ کی طرف روانگی |
|
308 |
وفد کا فتوحات کی وسعت کا طلبگار ہونا |
|
311 |
سوس کی فتح اور معرکہ نہاوند |
|
312 |
دانیال کی قبر |
|
314 |
معرکہ نہاوند میں مسلمانوں کا مال غنیمت |
|
318 |
سعد بن ابی وقاص اور چغل خور |
|
319 |
فتح اصبہان |
|
321 |
آذر بائیجان کی فتح |
|
322 |
رے وغیرہ کی فتح |
|
322 |
اہل رے کی صلح |
|
324 |
مدینہ الباب کی فتح |
|
325 |
ترک کی لڑائی |
|
327 |
عمر بن خطاب کی شہادت |
|
329 |
عمر فاروق کا قرض |
|
331 |
رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں تدفین کی عائشہ ؓ سے اجازت لینا |
|
331 |
خلافت شوریٰ |
|
332 |
خلیفہ کا چناؤ |
|
332 |
عمر کی لوگوں کو وصیت |
|
337 |
اپنے بعد والے خلیفہ کے لیے وصیت |
|
338 |
عمر کا قاتل ابو لؤلؤہ |
|
340 |
عبید اللہ بن عمر اور ان کا ہر مزان کو قتل کرنا |
|
341 |
ہرمزان اور جفینہ کی عمر کو قتل کرنے کی سازش |
|
343 |
عمر فاروق کی تدفین |
|
344 |