استعماریت کے معنیٰ ایک ملک کے ذریعہ دوسرے ملک یا علاقہ کو بتدریج اور منظم طریقہ سے سیاسی اور اقتصادی طور پر محکوم بنانے یا ایسے محکوم علاقوں کو برقرار رکھنے کی پالیسی کے ہیں۔ اس معنیٰ میں نوآبادیوں یا محکوم علاقوں کا وجود قدیم زمانہ سے ملتا ہے۔ ایشیا میں عربوں، منگولوں اور چینیوں کی توسیع، استعماری نوعیت کی تھی۔ خصوصی طور پر استعمار سے مراد یورپی طاقتوں کی پندرہویں اور سولہویں صدی کی جغرافیائی دریافتوں کے بعد سے سمندر پار علاقوں میں جنگ، فتوحات اور خالی علاقوں میں نوآباد کاری کی کوششوں سے ہے۔ استعماری طاقتیں نئے علاقوں کی تلاش، نوآباد کاری اور جنگ کے حادثوں سے استعماری طاقتیں بن گئیں۔ یورپی استعمار انیسویں صدی کے خاتمہ تک اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا جس کے محرکات سیاسی اور اقتصادی دونوں تھے۔ ایشیا اور افریقہ میں یورپ کی استعماری توسیع کا محرک سامراجیت بھی تھی یعنی اندرون یورپ بڑی طاقتوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں سمندر پار مقبوضات کا حصول قومی طاقت کی نشانی اور اس کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔استعماری تسلط اور استعماری حکومت کے جواز میں کئی طرح کے دلائل دئیے جاتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’استعماری تاریخ کےسیاہ اوراق‘‘ جناب شہباز حسین بارا کی کاوش ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں انسانی تاریخ کےانتہائی المناک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔تاریخ کے یہ تلخ اور سیاہ ابواب کمزور قوموں کے خلاف استعمار یعنی طاقتور ظالم قوموں کے ظلم کی عبارت ہیں اور نئی نسل کے لیے معلومات او رہنمائی کا خزانہ لیے ہوئے ہیں۔مصنف موصوف نے بڑے جذبے اور ہمت کےساتھ تاریخ کےمختلف ادوار میں استعمار کے ہتھکنڈے اور انسانیت کےخلاف ظالمانہ اقدامات بے نقاب کیے ہیں وہ حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہیں جو آج کےاستعمار کی حاشیہ نشینی کر رہے ہیں ۔(م۔ا)
فہرست زیر تکمیل