مولانا محمد رئیس ندوی ہندوستان کے کبار علما میں سے تھے جنھوں نے پوری زندگی دعوت و تبلیغ، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر کی، جس سے بے شمار لوگ مستفید ہوئے اور آپ کے بعد بھی آپ کے چھوڑے ہوئے علمی و تحقیقی اور وقیع لٹریچر سے آنے والی نسلیں اپنے عقیدہ و عمل کی اصلاح میں فائدہ اٹھائیں گی۔ زیر نظر کتاب ’اللمحات إلی ما فی أنوار الباری من الظلمات‘ دراصل دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے شائع کردہ کتاب ’انوارالباری شرح صحیح البخاری‘ کا جواب ہے، جس میں دیوبندی مؤلف نے ائمہ محدثین پر تنقید و تبصرہ میں حدودِ علم و ادب سے تجاوز کیا، اپنے مذہب کے مخالف علما و فقہا کے متعلق نازیبا زبان استعمال کی اور علمی مباحث میں تہذیب و شائستگی سے ہٹ کر ایسا لہجہ اختیار کیا جسے انصاف پسند دیوبندی حضرات نے بھی پسند نہیں کیا۔ زیر نظر کتاب ائمہ محدثین اور مسلک اہلحدیث کے دفاع پر مبنی ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے مذہب و مسلک کی حقیقت بھی دلائل و براہین کی روشنی میں خواب واضح کی گئی ہے۔ مولانا ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’انوار الباری‘ میں لکھے گئے خلاف حقائق امور کا جائزہ لیا اور ائمہ محدثین و مسلک اہلحدیث کے خلاف مؤلف انوار کی شرانگیزیوں کا سدباب کیا جنھیں ملاحظہ کرنے کے بعد مؤلف انوار کی علمیت کی حقیقت بخوبی عیاں ہو جاتی ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں دلائل و براہین کی روشنی میں مخالفین کے بعض بنیادی مسلمات کی ایسی نقاب کشائی کی ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ہر شخص حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو قارئین کے لیے علم و تحقیق کے نئے در وا کرے گی۔(ع۔م)