کسی بھی قوم اور ملک کی تاریخ ہی اُن کی عزت وعظمت اور ان کی پہچان کا باعث ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک اپنی تاریخ نا رکھتاہو تو اسے عزت واحترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔قوموں اور ملکوں کی سیاسی تاریخ کی طرح تحریکوں اور جماعتوں کی دینی اور ثقافتی تاریخ بھی ہمیشہ بحث وتحقیق کی محتاج ہوتی ہے۔محققین کی زبان کھلوا کر نتائج اخذ کرنے‘ غلطیوں کی اصلاح کرنے اور محض دعوؤں کی تکذیب وتردید کے لیے پیہم کوششیں کرنی پڑتی ہیں‘ پھر مؤرخین بھی دقتِ نظر‘ رسوخِ بصیرت‘ قوتِ استنتاج اور علمی دیانت کا لحاظ رکھنے میں ایک سے نہیں ہوتے‘ بلکہ بسا اوقات کئی تاریخ دان غلط کو درست کے ساتھ ملا دیتے ہیں‘ واقعات سے اس چیز کی دلیل لیتے ہیں جس پر وہ دلالت ہی نہیں کرتے‘لیکن بعض محققین افراط وتفریط سے بچ کر درست بنیادوں پر تاریخ کی تدوین‘ غلطیوں کی اصلاح ‘ حق کو کار گاہِ شیشہ گری میں محفوظ رکھنے اور قابلِ ذکر چیز کو ذکر کرنے کے لیے اہم قدم اُٹھاتے ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب میں بھی تاریخ ہند کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس میں مذہب‘ تمدن‘ اخلاق‘ نظام حکومت اور قوانین سلطنت پر محققانہ ومورخانہ بحث کی گئی ہے اور قدیم نظامات وقوانین جو ممالک روئے زمین اور اقوامِ عالم میں مروج رہے یکجا فراہم کیے گئے ہیں جن کے مطالعہ سے ہر شخص کی بصیرت ودانائی میں اضافہ اور نسل انسانی کی کامرانی ومقصدوری کا راستہ سامنے نظر آئے گا‘ اور جن چیزوں پر مؤلف نے زیادہ اہم سمجھا ہے اُن پر زیادہ زور اور استیفاء استفصاء کی شرط کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب سے ہر عام اور خاص فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اس کے مطالعے کے بعد کسی کو اس کے مطالعے پر افسوس نہیں ہوگا۔ یہ کتاب’’مصنفہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی تحقیقی اور علمی کاوش ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلفہ وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین) (ح۔م۔ا)
فہرست کمپوز ہو رہی ہے۔