مولوی محمد علی قصوری متوفی 1956ء نے انگلستان سے واپس آنے کے بعد 1914ء میں مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا عبید اللہ سندھی،حکیم اجمل خان اور دوسرے لیڈروں کے مشورہ سے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا ۔جب آپ کابل پہنچے تو قابل کے امیر عبد الرحمن نے آپ کو حبیبہ کالج کا پرنسپل مقرر کر دیا۔آپ نے تعلیمی اصلاحات کا ایک خاکہ بنایا اس کے مطابق ایک نصاب تعلیم تیار کیا۔بعد ازاں امیر عبد الرحمن نے مولانا کو کابل حکومت کا وزیر خارجہ بنا دیا تو میر عبد الرحمن کے بعض حواری مولانا محمد علی قصوری کے اثر و رسوخ سے بہت خائف ہوئے اور انہوں نے مولانا کے خلاف امیر عبد الرحمن کے کان بھرے جس کی وجہ سے مولانا کے لیے کابل میں رہنا مشکل ہو گیا تو آپ جون 1916ء میں یاغستان منتقل ہو گئے۔یاغستان سے آپ ہندوستان آنا چاہتے تھے لیکن کابل کے امیر عبد الرحمٰن کے حواریوں نے آپ کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ہندوستان میں بھی کئی لوگ آپ کے مخالف ہو گئے سرحد کے وزیر عبد القیوم کی کوششوں سے آپ پشاور پہنچے۔ زیر نظر کتاب ’’مشاہدات کابل و یاغستان ‘‘ مو لانا محمد علی قصوری رحمہ اللہ کے اسی سفر کی روداد پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
تمہید |
|
9 |
افغانستان کا تعلیمی نظام |
|
12 |
افغانستان کا نظام حکومت |
|
20 |
کابل کے بعد |
|
37 |
قبائل کی تنظیم |
|
50 |
انگریزوں کا سفید جھوٹ |
|
79 |
بیعت کا سوال |
|
96 |
شاہ اسماعیل شہید کی تحریک اور امیر نعمت اللہ کا طرز عمل |
|
103 |
جماعت مجاہدین اور اسلامی تحریکوں کے اصلی دشمن |
|
117 |
بیرونی ممالک سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش |
|
126 |
روس کومشن اور سندھ کڑی کا دورہ |
|
129 |
ڈپٹی برکت علی کا تعارف اور سر جارج روس کیپل کی تحریک پر ہندوستان کو واپسی |
|
140 |