اردو زبان و ادب کے ارتقاء، وسعت، تنوع اور تبدیلیوں میں تحریکوں اور رجحانات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انہی تحریکوں اور رجحانات کے زیر سایہ اردو زبان و ادب کی پرورش و پرداخت ہوئی اور انہی کے زیر نگرانی اس کے حسن میں نکھار آیا جس نے پوری دنیا کو مسحور کردیا اور لوگ اس کے دامِ سحر میں گرفتار ہونے لگے۔جن دو تحریکوں نے اردو زبان ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ہی نے اردو نثر کو مسجع و مقفیٰ کی بیڑیوں سے آزاد کرایا اور اس میں سب سے اہم رول بانیِ علی گڑھ تحریک سر سید احمد خاں کا ہے۔عمومی طور پر پاکستان اور خصوصی طور پر بیرون ملک میں اردو ، پنجابی اور پاکستان کی دوسری زبانوں اور ثقافتوں کو بچانے کے لیے کئی تنظیمیں اور تحریکیں بڑی بے چارگی سے ہاتھ پاوں مارتی نظر آتی ہیں۔ اسی سلسلے میں بے شمار پروگراموں اور ادبی محفلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے ۔ ان ادبی اور ثقافتی محفلوں میں ادب ، شاعری اور زبان کی نوعیت اور ہیت کو پڑھائی ، لکھائی اور اسکے ہنر تک محدود رکھتے ہوئے اسکی تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے لیکچر دئیے نہیں بلکہ پ...
لفظ ’’ تنقید ‘‘ نقدسے مشتق ہے جس کے معنیٰ جانچنا ، کھوج ، پر کھ، کھرے کھوٹے کی پہچان ، محاسن و معائب میں فرق کرنے کے ہیں۔ اصطلاح ادب میں کسی فن پارے یا تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کرتے ہوئے ادب میں اُس کا مقام تعین کرنا تنقید کہلاتا ہے ۔ زندگی کے تغیر و تبدل کے زیر اثر ادب میں رونما ہونے والے مسائل اور تبدیلیوں کو دیکھنا تنقید کے لئے لازمی ہے۔دراصل کسی ادب پارے کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ کوئی شاعر نظم یا غزل لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ اشعار کو کانٹ چھانٹ کے اور اُس کے نوک پلک درست کرکے تسلی بخش انداز میں تخلیق کرتا ہے۔ زندگی ہر وقت رواں دواں ہے۔ اس میں ہر لمحہ ایک نئے نظریے اور نئی فکر کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے ناقص اور بہتر کی تمیز کے لئے تنقید ضروری ہے ۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب کے تخلیق ہوسکتی ہے۔اور نہ فنی تخلیق کی قدروں کاتعین ممکن ہے۔ اس لئے اعلیٰ ادب کی پرکھ کے لئے تنقید لازمی ہے ‘‘ابتدائے آفرینش سے انسان میں تنقیدی شعور پای...
مولوی محمد علی قصوری متوفی 1956ء نے انگلستان سے واپس آنے کے بعد 1914ء میں مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا عبید اللہ سندھی،حکیم اجمل خان اور دوسرے لیڈروں کے مشورہ سے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا ۔جب آپ کابل پہنچے تو قابل کے امیر عبد الرحمن نے آپ کو حبیبہ کالج کا پرنسپل مقرر کر دیا۔آپ نے تعلیمی اصلاحات کا ایک خاکہ بنایا اس کے مطابق ایک نصاب تعلیم تیار کیا۔بعد ازاں امیر عبد الرحمن نے مولانا کو کابل حکومت کا وزیر خارجہ بنا دیا تو میر عبد الرحمن کے بعض حواری مولانا محمد علی قصوری کے اثر و رسوخ سے بہت خائف ہوئے اور انہوں نے مولانا کے خلاف امیر عبد الرحمن کے کان بھرے جس کی وجہ سے مولانا کے لیے کابل میں رہنا مشکل ہو گیا تو آپ جون 1916ء میں یاغستان منتقل ہو گئے۔یاغستان سے آپ ہندوستان آنا چاہتے تھے لیکن کابل کے امیر عبد الرحمٰن کے حواریوں نے آپ کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ہندوستان میں بھی کئی لوگ آپ کے مخالف ہو گئے سرحد کے وزیر عبد القیوم کی کوششوں سے آپ پشاور پہنچے۔ زیر نظر کتاب ’’مشاہدات کابل و یاغستان ‘‘ مو لانا محمد علی قصو...