نام: ناصرالدین البانی۔
نسب نامہ: محمدناصرالدین البانی بن نوح بن آدم بن نجاتی البانی ۔
ولادت:
شیخ ناصرالدین البانی کی ولادت 1914ءنمطابق 1332ھ میں البانیہ کےدارالسلطنت’’اشقودرہ،،میں ہوئی۔ ان کےوالدنےالبانیہ میں اپنی عافیت کی بدحالی کےخوف سےشام کی طرف ہجرت کی اوردمشق کواپنامسکن بنایا۔کیونکہ البانیہ میں مغربیت کی ترویج ہونےلگی تھی۔
تعلیم وتربیت :
شیخ ناصرالدین البانی نےاپنی ابتدائی تعلیم دمشق کےمدرسہ’’مدرسہ الاسعا ف الخبریہ الابتدایہ میں شروع کی۔دوران تعلیم مدرسہ میں آگ لگ جانےکی وجہ سے آپ سوق سروجہ کےایک دوسرے مدرسہ میں منتقل ہوگئے۔
چونکہ ان کےوالددینی اعتبارسےدینی تعلیم کےمروجہ نظام سےمطمئن نہ تھے لہذا انہوں نےشیخ کی مدرسہ کی تعلیم کی عدم تکمیل کافیصلہ کیااورخودان کےلیےایک تعلیمی پروگرام وضع کیاجوبنیادی طورپرتعلیم قرآن ،تجوید،صرف اورفقہ حنفی پرمرکوزتھا۔
شیخ نےبعض علماء دینیہ کی اورعربی کی تعلیم اپنےوالد کےبعض رفقاء (جن کاشماراس وقت کےشیوخ میں ہوتاتھا)سےبھی حاصل کی۔ان شیوخ میں سےشیخ سعیدبریانی سےآپ نے’’مراقی الفلاح ،،اورعلوم بلاغت کی کتابیں پڑھیں۔آپ نےاپنے زمانہ میں صلب کےمشہورمؤرخ علامہ شیخ راغب طباخ سےان کی جمع مرویات کی ’’اجازہ فی الحدیث،، حاصل کی تھی۔شیخ ناصرالدین البانی 20سال کی عمرمیں مجلۃ المنارمیں شائع ہونےوالی علمی بحوث سےمتاثرہوکرعلم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس کےبعدپھرعلم وعمل کی سیڑھیاں چڑھتےچلےگئےاوراس مقام پرپہنچےجس پربڑی محنت وکاوش کےبعد کوئی ایک پہچاہےآپ نےحدیث کی بہت خدمت کی۔
درس وتدریس:
فراغت کےبعد جب مدینہ منورہ میں الجامعہ الاسلامیہ (مدینہ منورہ)کی تاسیس ہوئی توچانسلرمدینہ یونیورسٹی اورمفتی عام برائے سعودی عرب شیخ علامہ محمدابراہیم آل شیخ نےحدیث اورفقہ الحدیث کوجامعہ میں پڑھانے کےلیے علامہ البانی کومقررکیا۔یہاں آپ 3سال تک فریضہ تدریس سرانجام دیتےرہے۔شیخ جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سےفارغ ہوکردمشق پہنچےاورپھرمکتبہ اظاہریہ میں خودکوقیمتی تالیفات اورنفع بخش مؤلفات کےلیے وقف کردیاتھا۔
شیخ کاہفتہ واری علمی پروگرام بھی ہواکرتاتھا جس میں یونیورسٹیوں کےاجل اساتذہ تک حاضرہواکرتےتھےان پروگراموں میں شیخ نےدرج ذیل کتابوں کادرس دیا۔
1۔الروضة القدية۔۔۔۔۔ صدیق حسن خان ۔
2۔منهاج السلام فی الحکم ۔۔۔۔۔۔ محمداسد۔
3۔اصول فقہ۔۔۔۔۔ عبدالوہاب کےخلاف۔
4۔مصطلع التاریخ ۔۔۔۔۔۔ اسدرستم۔
5۔فقہ السنہ ۔۔۔۔ سیدسابق.6۔ الحلال والحرام ۔۔۔ یوسف قرضاوی۔
7۔الترغیب والترهیب ۔۔۔ حافظ منذری.
8۔فتح المجید شرح کتاب التوحید۔۔۔۔۔ عبدالرحمن بن حسن۔
9۔الباحث الحشیب شرح اختصارعلوم الحدیث ۔۔۔۔ احمدشاکر۔
10۔ریاض الصالحین۔۔۔۔۔۔ امام نووی۔
11۔الامام فی احادیث الاحکام ۔۔۔۔۔ ابن دقیق العید۔
12۔الادب المفرد۔۔۔۔۔ امام بخاری۔
13۔اقتضاء الصراط المستقیم ۔۔۔۔ ابن تیمیہ۔
تصنیفات وتالیفات:
شیخ ایک برق رفتارمؤلف تھے آپ کی مطبوعہ مؤلفات کی تعداد ایک سوبیس(120)سےمتجاوزہے۔
شیخ کی کتابوں کےمختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوچکےہیں۔بےشمارکتابوں میں سےشیخ کی چندایک مشہورکتابوں کےنام درج ذیل ہیں۔
1۔سلسله احادیث صحیحه 2۔سلسله احادیث ضعیفه والموضوعه۔
3۔صحیح الترهیب والترهیب 4۔صحیح سنن ابی داؤد 5۔صحیح الادب المفرد 6۔صحیح ابن ماجہ 7۔احکام الجنائز 8۔تحذیر الساجدمن اتخازالقبورالمساجد 9۔حجاب المراة المسلمة فی الکتاب والسنة 10۔ضعیف سنن ابی داؤد 11۔ضعیف ابن ماجہ 12۔ضعیف الترهیب والترهیب 13۔معجم حدیث النبوی ﷺ۔
14۔حجیت حدیث 15۔حلال وحرام وسیلہ 16۔بدعات کاانسائیکلوپیڈیا 17۔توحید سب سےپہلےاےداعیان اسلام۔
18۔نماز نبوی احادیث صحیحہ کی روشنی میں ۔
اس کےعلاوہ بھی شیخ کی بےشمارکتابیں ہیں۔
تلامذہ:
شیخ البانی کےذات سےبےشمارلوگوں نےفیض حاصل کیا آپ کےتلامذہ کی شمار ممکن نہیں ہے لیکن چیدایک مشہورتلامذہ کےنام درج ذیل ہیں۔
1۔شیخ حمدی عبدالمجید السلفی جومعروف محقق اورصاحب تحقیقات ومؤلفات وتخریجات علمیہ کثیرہ ہیں 37سےزائدکتب آپ کی مساعی جمیلہ کاثمرہ ہیں۔
2۔شیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق جومعروف مؤلف ہیں۔مختلف موضوعات پر24سےزائدکتب تحریرفرکائی ہیں۔
3۔ڈاکٹرعمرسلیمان الاشقر 18سےزائدکتابوں کےمؤلف ہیں۔
4۔شیخ خیرالدین وائلی 9سےزائدوقیع کتابوں کےمؤلف ہیں۔
5۔شیخ محمدعبیدعباسی شیخ کےخادم ونمایاں تلامذہ میں آپ کاشمارہوتا ہے۔
6۔شیخ محمدابراہیم شقرہ 6 سے زائد نافع مؤلف آپ کی کاوشوں کاثمرہ ہیں۔
7۔شیخ محمدبن جمیل زینو 10 سےزائدکتابیں لکھی ہیں۔
8۔شیخ مقبل بن یادی الوداعی10 سےزائدمفیدکتابوں کےمؤلف ہیں۔
9۔شیخ زہیرالشاویش 19 سےزائدکتب آپ کی مساعی کانتیجہ ہیں۔
ان کےعلاوہ بہت سےمشاہیر علماء کرام جودین کی خدمت میں پیہم مصروف کار ہیں شیخ کی ذات سےکسب فیض حاصل کرنےوالوں میں شامل ہیں۔
وفات:
اپنی زندگی کےآخری سالوں میں شیخ کوبہت سی بیماریاں لاحق ہوگئیں تھیں آخری ایام میں علاج کی غرض سےہسپتال بھی داخل رہے۔لیکن آخر کار3اکتوبر 1199ءکواردن میں فکروبصیرت کایہ روشن ستارہ امت کابطل جلیل،مقتدرعالم،باوقارمبلغ،دوراندیش مفتی،علم وفن کاامام،تصنیف وتالیف کےمیدان کاشاہ سواراوردعوت دین وتبلیغی کی محفلوں کایہ شمع فروزان گل ہوگئی۔ اناللہ اناالیہ راجعون۔
حوالہ: ماہنامہ محدث:نومبر1999ء انٹرنیٹ ویکیپیڈیا۔
عورت کے لیے پردے کا شرعی حکم اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دے کر عزت و تکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ پردہ کا شرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور مرد کی شہوانی کمزوریوں کا کافی و شافی علاج ہے۔ اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض عین ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ایک سے زائد مقامات پر آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ کئی اہل علم نے عربی و اردو زبان میں پردہ کے موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’نماز میں عورت کا پردہ اور لباس‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب " مزید مطالعہ۔۔۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے ۔آپﷺ نے اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، ارشاد نبوی ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کو بھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کے بارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ ر...