اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا اوراسلام کو بحیثیت دین بھی مکمل کردیا اور اسے تمام مسلمانوں کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے یہی وہ عقید ہ جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ کہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں قرآن مجید سے یہ عقیدہ واضح طور سے ثابت ہے کہ کسی طرح کا کوئی نبی یا رسول اب قیامت تک نہیں آسکتا جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم وولکن رسول الله وخاتم النبین (الاحزاب:40) ’’محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں البتہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں‘‘ حضورﷺ کےبعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس میں مسلمانوں میں کوئی بھی اختلاف نہیں رہا کہ جو شخص حضرت محمدﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے او رجو اس کے دعویٰ کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے آنحضرت ﷺ نے متعدد احادیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نہیں ۔برطانوی سامراج نے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور دین اسلام کے بنیادی اصول احکام کو مٹانے کے لیے قادیان سے مزرا احمد قادیانی کو اپنا آلہ کار بنایا مرزا قادیانی نے انگریزوں کی حمایت میں جہاد کو حرام قرار دیا اورانگریزوں کی حمایت اور وفاداری میں اتنا لٹریچر شائع کیا کہ اس نے خود لکھا کہ میں نے انگریزی حکومت کی حمایت اوروفاداری میں اس قدرلٹریچر شائع کیا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں اس نے جنوری 1891ء میں اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان اور 1901ء میں نبوت ورسالت کا دعویٰ کردیا جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہا۔قادیانی فتنہ کی تردید میں پاک ہند کے علمائے اہل حدیث نے جو تحریری وتقریری خدمات سر انجام دی ہیں اور اس وقت بھی دے رہے ہیں وہ روزورشن کی طرح عیاں ہیں مرزا قادیانی نے جیسے ہی پر پرزے نکالنے شروع کیے اسی وقت سے اللہ تعالیٰ نے ایسے بندے کھڑے کردیئے جنہوں نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔ سب سے پہلے اس کا جھنڈ ا معروف سلفی عالم دین مولانا محمد حسین بٹالوی نے اٹھایا پھر مولانا ثناء اللہ امرتسری ،قاضی سلیمان منصورپور ی،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،حافظ عبد القادر روپڑی ، حافظ محمد گوندلوی ،علامہ احسان الٰہی ظہیر وغیرہ کے علاوہ بے شمار علماء ختم نبوت کی چوکیداری کےلیے اپنے اپنے وقت پر میدان عمل میں اترتے رہے ۔موجودین میں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں ڈاکٹر بہاء الدین ﷾ کی خدمات سب سے نمایاں ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت فرمائے اور انہیں صحت وتندرستی سے نوازے ۔(آمین)اور اسی طرح اہل حدیث صحافت کی بھی نمایاں خدمات ہیں ۔دعوت اہل حدیث،سندھ، اور ضیائے حدیث،لاہور کی اشاعت خاص قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ ’’دعوت اہل حدیث ختم نبوت نمبر‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جوکہ رد قادیانیت کے سلسلے میں جید علمائے اہل حدیث کے 30 علمی وتحقیقی مضامین ومقالات پر مشتمل ہے۔جس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں قادیانیت کی حقیقت کو خوب واضح کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ماہنامہ دعوت اہل حدیث کےایڈیٹر حافظ عبد الحمید گوندل ﷾ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے بڑی محنت سے معروف علماءکرام سے مضامین حاصل کرکے ان کو گیارہ مختلف موضوعات میں تقسیم کیا اور حسن طباعت سے آراستہ کیا ۔(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
ختم نبوت ایک حقیقت پسندانہ جائزہ |
|
7 |
حصہ اول عقیدہ ختم نبوت |
|
16 |
ختم نبوت پر واقعاتی شواہد |
|
23 |
حصہ دوم حیات سیدنا مسیح علیہ السلام |
|
34 |
ختم نبوت اور نزول مسیح علیہ السلام |
|
47 |
حصہ سوم سیرت النبی ﷺ |
|
52 |
خلق محمدی ﷺ |
|
52 |
حصہ چہارم فتنہ قادیانیت و رد قادیانیت |
|
70 |
مرزائیوں کے خاص عقائد اور ان کا رد |
|
70 |
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے اخلاق کے آئینے میں |
|
82 |
کیا مرزا بھی نبی ہے؟ |
|
122 |
مرزا قادیانی کا محمدی بیگم سے نکاح |
|
141 |
حصہ پنجم قادیانیت تحقیق و تنقید کے آئینے میں |
|
150 |
تفصیل عدالتی فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاولپور |
|
151 |
مقدمہ بہاولپور اور غلام احمد پرویز کی دروغ گوئیاں |
|
155 |
مرزائے قادیان اور انگریزی گورنمنٹ |
|
171 |
کیا مرزا قادیانی حنفی تھا؟ |
|
176 |
حصہ ششم فتنہ قادیانیت اور اہل حدیث کی اولیات |
|
190 |
مرزائیت کی تردید میں اہل حدیث کی تگ و تاز |
|
195 |
اولین فتویٰ کفر |
|
205 |
حصہ ہفتم تحریک ختم نبوت اور اہل حدیث کی خدمات |
|
230 |
رد قادیانیت میں اہل حدیث کا کردار |
|
230 |
اسلام اور مرزائیت |
|
238 |
تحریک ختم نبوت میں اہل حدیث کا کردار |
|
247 |
مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت اور علماء اہل حدیث کا کردار |
|
268 |
حصہ ہشتم تحریک ختم نبوت میں علماء اہل حدیث کی خدمات |
|
276 |
حصہ نہم عقیدہ ختم نبوت اور نام نہاد مسلمان |
|
350 |
حصہ دہم سلسلۃ الکذابین |
|
424 |
حصہ یازدہم ستاروں کی جھرمٹ |
|
466 |
مضمون نگار حضرات کا مختصر تعارف |
|
466 |