اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اُصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اُصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف یا پیداکاراسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔اسلامی نظامِ معیشت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کا کام بیسویں صدی کے تقریبا نصف سے شروع ہوا ۔ چند دہائیوں کی علمی کاوش کے بعد 1970ءکی دہائی میں اس کے عملی اطلاق کی کوششوں کا آغاز ہوا نہ صرف نت نئے مالیاتی وثائق ،ادارے اور منڈیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں بلکہ بڑے بڑے عالمی مالیاتی اداروں نے غیر سودی بنیادوں پرکاروبار شروع کیے۔بیسوی صدی کے اختتام تک اسلامی بینکاری ومالکاری نظام کا چرچا پورے عالم میں پھیل گیا ۔اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ پاکستان کی مشہورومعروف شخصیت مولانا مفتی تقی عثمانی ﷾ کے ان دروس کی کتابی صورت ہے جو انہوں نے تقریباً پچیس سال قبل ’’ مرکز الاقتصاد الاسلامی،کراچی ‘‘ کے زیر انتظام پندرہ روزہ کورس میں ملک بھر کےممتاز دینی اداروں کےاستاتذہ کرام ، مفتی حضرات اور اہل علم کے سامنے پیش کیے ۔مولانا تقی عثمانی صاحب کے ان دروس کو مفتی محمد مجاہد صاحب(استاذ حدیث جامعہ امدایہ ،فیصل آباد) نے ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے تیار کیا ہے جس پر مولانا تقی عثمانی صاحب نے نظر ثانی کر نے کے علاوہ مناسب ترمیم واضافہ بھی کیا ہے ۔اس کتاب کے اہم عناوین یہ ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اصول ،اشتراکیت ،معیشت کے اسلامی احکام ،مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم ، کاروبار کی مختلف اقسام ،بازار ِ حصص،شیئرز کی خرید وفروخت کا طریق ِکا ر اور اسی شرعی حیثیت، کمپنی کی شرعی حیثیت اور اس کے چند جزوی مسائل ، نظام زر، کاغذی نوٹ کی شرعی حیثیت اور اس کے فقہی احکام،بینکاری،سودی بینکاری کا متبادل نظام ،غیر مصرفی مالیاتی اداروں کا شرعی حکم ، بیمہ؍انشورنش وغیرہ ۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
باب اول: جدید تہذیب کا ارتقاء |
13 |
فصل اول: یورپ کے ذہنی انحطاط کا سفر |
13 |
الف۔ یونانی تہذیب |
18 |
وثنیت /بت پرستی |
19 |
عقل کو معیار قرار دینا |
21 |
یونانی تہذیب کی خصوصیات |
22 |
ب۔ رومی تہذیب |
24 |
دنیاوی اور ظاہری امور پر توجہ |
25 |
اخلاقی انحطاط وشہوانیت |
26 |
ج۔ مسیحیت اور کلیسا |
27 |
مسیحیت میں بت پرستی کی آمیزش |
31 |
رہبانیت کی بدعت |
32 |
حکومت وکلیسا کی آویزش |
38 |
کتب مقدسہ میں رد وبدل |
39 |
معرکہ مذہب وسائنس |
40 |
فصل دوم: نشاۃ ثانیہ( یورپ میں عقلی بیداری) |
47 |
صلیبی جنگیں |
50 |
مدرسیت |
52 |
اندلس سے علم کی منتقلی |
56 |
تحریک احیاء العلوم کا آغاز |
56 |
انسانیت پرستی |
60 |
تحریک اصلاح دین |
63 |
عقلیت پرستی کا دور |
67 |
انقلاب فرانس |
71 |
فصل سوم: جدیدیت |
74 |
جدیدیت کی خصوصیات |
78 |
چارلس ڈارون |
84 |
سگمنڈ فرائیڈ |
86 |
کارل مارکس |
89 |
حاصل بحث |
91 |
حواشی |
94 |
باب دوم: مابعد جدیدیت |
108 |
فصل اول: مابعد جدیدیت ایک تعارف |
108 |
ما بعد جدیدیت اصطلاح کی تاریخ |
122 |
برقیاتی علم نئی ذہنیت |
126 |
سائنسی علم بیانیہ اور مہابیانیہ |
127 |
مابعد جدید مفکرین پر نطشے کا اثر |
129 |
الف۔ میڈیا |
132 |
ب۔ میٹروپولس |
134 |
ج۔ صارفیت کا کلچر |
135 |
د۔ عالمی گاؤں اور عالمگیریت |
135 |
و۔ کیمونزم کی ناکامی |
138 |
مابعد جدیدیت اور مغربی مفکرین |
148 |
1۔ رولینڈ بارتھ |
148 |
2۔ چارلس جینکس |
150 |
3۔ جین فرینکوس لیوٹارڈ |
152 |
4۔ جیکوس دریدا |
154 |
5۔ مثل فوکو |
156 |
6۔ جین بادریلا |
158 |
فصل دوم: مابعد جدیدیت کے بنیادی نظریات |
161 |
الف۔ سچائی کی اضافیت کا نظریہ اور مہابیانیہ کا رد |
164 |
مہا بیانیہ کیا ہے؟ |
173 |
سچائی کی اضافیت کیا ہے؟ |
178 |
سچائی کی اضافیت اور اسلامی نقطہ نظر |
187 |
ب۔ دنیا کے غیر حقیقی ہونے کا نظریہ |
196 |
ہائپررئیلٹی کیاہے؟ |
199 |
تشکلیلی حقیقت کی مثالیں |
206 |
دنیا کی حقیقت اور ہائپررئیلٹی اسلامی نقطہ نظر |
207 |
ج۔ رد تشکیل |
222 |
رد تشکیل کے بارےمیں اسلامی نقطہ نظر |
233 |
حواشی |
244 |
باب سوم: مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام |
252 |
فصل اول: ما بعدجدیدیت کےاثرات |
252 |
الف۔ اسلامی معاشرہ کے تناظر میں |
252 |
ب۔ عالمی تناظر میں |
258 |
فصل دوم: مابعد جدیدیت اور فروغ اسلام |
263 |
فصل سوم: ما بعددجدیدیت اور اسلامی نظریہ حیات |
271 |
حواشی |
276 |
حاصل بحث |
278 |
نتائج تحقیق |
285 |
اشاریہ قرآنی آیات |
288 |
احادیث نبوی |
290 |
مصادر ومراجع |
291 |