مستشرقین سے مراد وہ غیرمسلم دانشور حضرات ہیں جو چاہے مشرق سے تعلق رکھنے والے ہوں یا مغرب سے کہ جن کا مقصد مسلمانوں کے علوم وفنون حاصل کرکے ان پر قبضہ کرنا اور اسلام پر اعتراضات کرنا ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن وحدیث ،سیرت اور اسلامی تاریخ کو بطور خاص اپنا ہدف بنایا ہے وہ انہیں مشکوک بنانے کےلیے مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہیں ۔زیر نظر کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے جوکہ دراصل دار المصنفین اعظم گڑھ کے زیر اہتمام فروری 1982 میں اسلام اور مستشرقین کے عنوان پر منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں جید اکابرعلماء اور عالم اسلام کے نامور اسلامی سکالرز ودانشور حضرات کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے امید ہے اس کے مطالعہ سے مستشرقین کے ہتھکنڈوں او ر ان کے شبہات کی تردید کے لیے دلائل سے اگاہی حاصل ہوگی۔ ان شاء اللہ(م۔ا)
حکیم عمر خیام چھٹی صدی ہجری کے معروف فارسی شاعر اور فلسفی ہیں۔آپ نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ علوم و فنون کی تحصیل کے بعد ترکستان چلےگئے۔ جہاں قاضی ابوطاہر سے تربیت حاصل کی ۔ اور آخر شمس الملک خاقان بخارا کے دربار میں جا پہنچے۔ ملک شاہ سلجوقی نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر صدر خانۂ ملک شاہی کی تعمیر کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے یہیں سے فلکیاتی تحقیق کا آغاز کیا، اور زیچ ملک شاہی لکھی۔ وہ اپنی رباعیات کے حوالے بہت مشہور ہیں۔ ان کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام معروف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ آپ علوم نجوم و ریاضی کے بہت بڑے عالم تھے۔ آپ کی تصانیف میں ما الشکل من مصادرات اقلیدس ، زیچ ملک شاہی ، رسالہ مختصر در طبیعیات ، میزان الحکم ، رسالۃ اکلون و التکلیف ، رسالہ موضوع علم کلی وجود ، رسالہ فی کلیات الوجود ، رسالہ اوصاف یا رسالۃ الوجود ، غرانس النفائس ، نوروزنامہ ، رعبایات خیام ، بعض عربی اشعار ، مکاتیب خیام فارسی ’’ جو اب ناپید ہے‘‘قابل ذکر ہیں۔زیر تبصرہ کتاب (خیام)ہندوستان کے معروف اہل علم مورخ سید سلیمان ندوی کی کاوش ہے،جس میں انہوں نے...
تعلیم و تربیت انسان کی سب سے پہلی،اصل اور بنیادی ضرورت ہے۔ہماری تاریخ میں اس کی عملی تابندہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف جہاں مسجد نبوی میں چبوترے پر اہل صفہ علم حاصل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے آزادی کے بدلے ان پڑھ صحابہ کو تعلیم یافتہ بنانے کی شرط رکھی جاتی ہے اور کبھی مسجد نبوی کا ہال دینی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی افہام و تفہیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ آج کل فن تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ہر طرف ٹریننگ اسکول اور کالج کھلے ہیں،مدرس تیار کئے جاتے ہیں،فن تعلیم پر نئی نئی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور نئے نئے نظرئیے آزمائے جاتے ہیں۔ایک وہ وقت بھی تھا جب اس روئے زمین پر مسلمان ایک ترقی یافتہ اور سپر پاور کے طور پر موجود تھے،مسلمانوں کے اس ترقی وعروج کے زمانے میں بھی اس فن پر کتابیں لکھی گئیں اور علماء اہل تدریس نے اپنے اپنے خیالات کتابوں اور رسالوں میں تحریر کئےاور کتاب وسنت ،بزرگوں کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں جو تعلیمی نتائج انہوں نے سمجھے تھے انہیں اصول وقواعد کی حیثیت سے ترتیب دے دیا تھا۔ضرورت...
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو قیامت کے تک لیے زند ہ معجزہ قرآن مجید عطا فرمایا اور اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا بھی بندوبست فرمایا اور اس کے لیے ایسے رجال کار پید ا فرمائے جنہوں نے علوم قرآن سے متعلق تفاصیل اور تفاسیر مرتب کرتے ہوئے اپنی جانیں کھپادیں۔انہی میں سے ایک شعبہ علوم تفسیر،کتب تفسیر ،اور مفسرین کے حالات کا جاننا بھی ہے اپنے اپنے ادوار میں علماء کرام نے اس میدان میں خوب کام کیا او رخدمات انجام دیں۔ہندوستان صدیوں تک اسلامی تہذیب وثقافت کا مرکز رہ چکا ہے جس کے آثار ونقوش اس کے ذرہ ذرہ پر ثبت ہیں ، یہاں کے علماء اور اصحاب کمال کے علمی ،دینی او رتہذیبی کارنامے اسلامی ملکوں سے کم نہیں ہیں ۔ علم وفن کی ہر شاخ خصوصاً دینی علوم میں ہندوستان میں جو علماء پیدا ہوئے ان کی علمی عظمت اسلامی اور عرب ملکوں میں بھی مسلم تھی۔تفسیر کی جانب بھی ہندوستانی مفسرین کی خدمات بڑی نمایاں ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ تذکرۂ مفسرین ہند‘‘ دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ(ہند)کے ایک رفیق جناب محمد عارف اعظمی عمری کی تصنیف ہے ۔ اس میں انہوں نے ہندوستان میں تیرہو...
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دولت عثمانیہ ‘‘دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ہند کے رفیق خاص جناب ڈاکٹر محمد عزیر کی تصنیف ہے ۔ بقول سید سلیمان ندوی (سابق ناظم دارالمصنفین)یہ کتاب اپنی تصنیف کے وقت دولت عثمانیہ کے تاریخ کے متعلق تحریری کی جانی والی اردو زبان میں پہلی کتاب تھی ۔اس سے پہلے دولت عثمانیہ کے متعلق جوکچھ لکھا گیا وہ محض پورپین مصنفین کے تراجم اورخیالات تھے ۔ لیکن مصنف کتاب...
اسلام کے بڑے بڑے محاسن اور خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دین، رواداری، عفوودرگذر، رحمت، آسانی اور انسانیت کا دین ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے لیے یہ دین خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے۔ اسلام کی خوبصورتی حسن اور تاثیر کی بنیاد عفوودرگذر، رحمت وعدل اور بلند ترین اخلاق پر قائم ہے۔ انہی اخلاقِ عالیہ ہی کی بدولت لوگ دینِ اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے۔ دین اسلام کی بلندترین بے مثال اخلاقی، عقدی اور ایمانی اقدار کی بناء پر یہ لوگوں میں مقبول ہوا۔ اسلام کی بلند ترین اور لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے گہری ترین قدروں میں سے یہ بھی ہے کہ عفوودرگذر اور رواداری کو اپنایا جائے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں بے شمار اور مسلسل نصوص شرعیہ بیان ہوئی ہیں جو انسان کو اس عظیم اسلامی خوبی سے متصف ہونے پر ابھارتی ہیں۔ نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ میں اس کی عملی مثالیں ملتی ہیں تاکہ دین الٰہی کا روشن چہرہ لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام آج تک اور قیامت تک آنے والے لوگوں نے یہ خوبی آپﷺکی حیات طیبہ سے ہی سیکھی ہے۔ اسلام نے دوسرے مذھب کے...
علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔ زیر تبصرہ کتاب" اقبال کامل...
علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر...
برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو...
علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پر...
علامہ ابن خلدون 1332ء تیونس میں پیدا ہوئے۔ ابن خلدون مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ مکمل نام ابوزید عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کا وزیر مقرر ہوا۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلا گیا۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگیا۔ اور الازھر میں درس و تدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اس کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا۔اسی عہدے پر 74سال کی عمر میں وفات پائی اور اسے قاہر ہ کے قبرستان میں دفن کیاگیا لیکن زمانے کی دست برد سے اس کی قبر کا نشان تک مٹ گیا۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ابن خلدون نے بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف علوم وفنون کے متعلق چھوٹی بڑی کئی کتب تصنیف کیں۔ا س کی شہرت کی بڑی وجہ اس کی تاریخ ’’العبر‘‘ ہےاس کی تاریخ کا پورا نام ’’کتا ب العبر ودیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ‘‘ ہےاس کتاب میں...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔مسلم حکمرانوں نے جہاں ساری دنیا کو اپنی ایجادات سے فائدہ پہنچایا وہیں ہندوستان کے مسلم حکم...
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اٹھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کی میں کوئی تحریف وتصحیف سامنے نہیں آئی۔ اور اگر کسی نے یہ مذموم کوشش کی بھی تو اللہ تعالی نے اسے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا۔قرآن مجید عہد نبویﷺ سے ہی زبانی حفظ کے ساتھ ساتھ کتابی شکل میں بھی لکھا جاتا رہا ہے۔آپ ﷺ نے متعدد صحابہ کرام کو کاتب وحی کے طور پر مقرر کر رکھا تھا۔ کلمات قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں اور رسم کے خلاف اس معروف کتاب کو رسم عثمانی یا رسم الخط کہا جاتا ہے۔تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنا واجب اور ضروری ہے ،اور اس کے خلاف لکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہذا کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی ،حتی کہ معروف وقیاسی عربی رسم میں بھی لکھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ درحقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی...
مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔اور جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے...
مولانا الطاف حسین حالی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کےنامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔دلی میں 2 سال عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ حالی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاََ مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا، اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔1856ء میں ہسار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہوگئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفؔتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے۔ پھر دلی آکر مرزا غالب کے شاگرد ہوئے۔ غالب کی وفات پر حالی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔...
تجارت کی غرض سے عرب تاجر ہندوستان کے ساحلوں پر آتے جاتے رہتے تھے اس سلسلے میں ایک بڑی تعداد سری لنکا میں آباد ہو گئی تھی اس کے علاوہ مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی عرب مسلم آبادیاں تھیں ایک روایت کے مطابق فتح سندھ سے قبل عرب مسلمان سندھ میں بستے تھے پانچ سو عرب مسلمان مکران سے سندھ میں آکر آباد ہو گئے تھے دیبل کی بندرگاہ کی وجہ سے بھی سندھ میں مسلمان آبادیاں تھیں۔ بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب مسلمانوں کا دوسرا مرکز ہندوستان کا وہ آخری کنارہ تھا جس کو ہندوؤں کے پرانے زمانے میں "کیرالہ" کہتے تھے اور بعد کو "ملیبار" کہنے لگے یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے بہت سے عرب تاجر بس گئے تھے۔ تجارت کے علاوہ عربوں کے ہندوستان پر حملوں کو بھی تاریخ میں عربوں کی آمد کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ ضیاء الدین اصلاحی کی کاوش ہے۔ جسے انہوں نے ہندوستان کے متعلق قدیم عربی مصنفین خصوصاً جغرافیہ نویسوں اور ساحوں کی عربی کتابوں سے استفادہ کر کے اردو میں دو جلدوں میں پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
اسلام کے بڑے بڑے محاسن اور خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دین، رواداری، عفوودرگذر، رحمت، آسانی اور انسانیت کا دین ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے لیے یہ دین خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے۔ اسلام کی خوبصورتی حسن اور تاثیر کی بنیاد عفو و درگذر، رحمت وعدل اور بلند ترین اخلاق پر قائم ہے۔ انہی اخلاقِ عالیہ ہی کی بدولت لوگ دینِ اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے۔ دین اسلام کی بلند ترین بے مثال اخلاقی، عقدی اور ایمانی اقدار کی بناء پر یہ لوگوں میں مقبول ہوا۔ اسلام کی بلند ترین اور لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے گہری ترین قدروں میں سے یہ بھی ہے کہ عفو و در گذر اور رواداری کو اپنایا جائے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں بے شمار اور مسلسل نصوص شرعیہ بیان ہوئی ہیں جو انسان کو اس عظیم اسلامی خوبی سے متصف ہونے پر ابھارتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ میں اس کی عملی مثالیں ملتی ہیں تاکہ دین الٰہی کا روشن چہرہ لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام آج تک اور قیامت تک آنے والے لوگوں نے یہ خوبی آپﷺ کی حیات طیبہ سے ہی سیکھی ہے۔ اسلام نے دوسرے مذھب کے پیرو...
اسلامی تہذیب وتمدن اور ثفاقت ومدنیت کے خاص اصول واحکام اور مبادی واقدار ہیں۔ جودوسروں سے ممتاز ومنفرد ہیں۔ اس کی مدنیت کے جو ظواہر اور ٹھوس معاملات امور وجود میں آئے وہ ان ہی بنیادی اقدار واصول کے عطاکردہ ہیں۔ اور وہ بھی دوسری تہذیبوں ،تمدن اور ثقافتوں کے ظواہر سے جداگانہ اور ممتاز ہیں ۔اسلامی تہذیب وتمدن بالخصوص نبوی عہد کے تمدن کےدو اہم پہلو ہیں۔ ایک آفاقی وعالمی پہلو ہے اوردوسرا مقامی اور علاقائی پہلوہے۔ عہد نبوی کا تمدن اپنی بنیاد ونہاد میں عربی اسلامی تمدن ہے۔ جس میں عربی مقامی روایات بھی موجود ہیں۔ ان خالص مقامی روایات وظواہر میں سے بھی بعض میں اسلامی آفاقیت موجود ہے اور وہ تمام اقدار واصول کی طرح تمام مسلمانوں اور مسلم علاقوں کےلیے لازمی اگر نہیں بنتی تو پسندیدہ ومسنون ضرور قرار پاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلام اور عربی تمدن‘‘ شام کی مشہور فاضل شخصیت محمد کرد علی کی عربی کتاب ’’ الاسلام والحضارۃ العربیۃ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں مذہب اسلام اور اسلامی تہذیب وتمدن پر علمائے مغرب کے اہم ا...
بعثتِ نبوی ﷺ سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی) مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ”کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بلاد و قصبات میں آ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے کئی علاقوں میں سکونت اختیار کرلی“نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔ بزمانہٴ خلافت شیخین (حضرت ابوبکر وعمر ؓ) حضرت ابوموسیٰ اشعری کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے رشتہ دار تھانہ، بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی کارنامے‘‘ دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے رفقاء کی مرتب کردہ ہے۔ اس کتاب میں سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے فن تعمیر، رفاہ عام کے کام، شہروں اور گاؤں کی آبادی، باغات، ترقی حیوانات، ترقی تعلیم، کاغذ سازی، کتب خانے او رخطاطی وغیرہ پر تفصیلیر و شنی ڈالی گئی ہے۔ (م۔ا)
حکیم سید عبد الحی ندوی عالم اسلام کے معروف اسلامی سکالر و ادیب،مصنف کتب کثیرہ مولانا سید ابو الحسن ندوی کے والد گرامی ہیں۔ موصوف اپنے وقت کے معروف عالم دین اور مؤرخ تھے مولانا عبد الحی صاحب کی آٹھ جلدوں میں مبسوط نزھۃ الخواطر کو آج بھی دینی وعلمی حلقوں میں حوالے کی کتاب کے طور پر بلند مقام حاصل ہے۔ اس میں انھوں نے ساڑھے چار ہزار سے زائد شخصیات کے حالات قلمبند کئے ہیں اس کے علاوہ گل رعنا اور معارف الموارف فی انواع العلوم و المعارف (عربی) جیسی ان کی تصانیف برصغیر پاک وہند کے علمی ذخیر ے میں امتیازی شان کی حامل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ‘‘مولانا حکیم سید عبد الحی کی ہندوستان کی تہذیب وثقافت کے متعلق تصنیف کردہ عربی کتاب ’’الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ مولاناابو العرفان ندوی نے کیا ہے یہ ترجمہ پہلے 1970ء میں شائع ہوا تھا زیر تبصرہ ایڈیشن اسی کا جدید معیاری ایڈیشن ہے جسے دار المصنفین نے 2009ء میں شائع کیا ہے۔...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے‘‘ دار المصنفین کے رفیق سید صباح الدین عبد الرحمٰن کی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے دربار،محلات، حرم، لباس، پارچہ بافی، زیورات، جوہرات، خوشبوئیات، خورد و نوش، ساز وسامان، تہوار، تقریبات، موسیقی، اور مصوری وغیرہ کی مکمل تفصیل بیان کی...
اللہ رب العزت کے ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد کریمﷺ ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہر نبی کو چند ساتھی دیے جنہیں حواری کے لفظ سے جانا جاتا ہے اور ہمارے نبیﷺ کے ساتھیوں کو صحابہ کے نام سے۔ ہر نبی کے ساتھیوں کو اتنی عظیمت وشان حاصل نہیں ہے جتنی کہ نبیﷺ کے صحابہؓ کو حاصل ہے اور پھر آگے صحابہ کرامؓ میں سے بھی کچھ صحابہ فضائل میں دوسروں کی نسبت عظمت والے ہیں اور ہمارے اسلاف کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کے صحابہ کےحالات زندگی محفوظ کیے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتا ب میں مولوی سعید صاحب انصاری ﷾نے انصار صحابہ کے حالات وسوانح‘ اور ان کے علمی‘ مذہبی‘ اخلاقی اور سیاسی کارناموں کی پوری تفصیل بیان کی ہے کیونکہ صحابہؓ کی مقدس صف میں انصار کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے اس لیے انصاری صحابہ کے حالات بیان کیے گئے ہیں اور نام حروف تہجی کے اعتبار سے بیان کیے گئے ہ...
دنیا میں ہزار وں سماجی مصلحین ،فلاسفہ و حکماء ،مدبرین و سیاست داں ،مقنّنین ومنتظمینِ سلطنت ،انسانوں کا بھلا چاہنے والے اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرنے والے آئے ،لیکن انسانی سماج پر جتنے ہمہ گیر اثرات خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی ذاتِ گرامی ، صحابہ اور تابعین کے مرتب ہوئے ، اتنی اثر آفرینی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ۔ تابعین کی شخصیت کے سحر ،کردار کی عظمت اور اخلاق کی پاکیزگی کی گواہی اپنوں اور پرایوں سب نے دی ہے اور تابعین کی تعلیمات و افکار کی بازگشت دنیا کے ہر خطے میں سنائی دیتی ہے تابعین کی شخصیت اور پیغام کے بارے میں ہر زمانے میں اور دنیا کے ہر خطے میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تابعین ‘‘ شاہ معین الدین احمد ندوی کی ہے۔ جس میں چھیانوے اکابر تابعین ؓ کۃ سوانح زندگی اور ان کے مذہبی، اخلاقی، علمی، اصلاحی اور مجاہدانہ کار ناموں کا تفصیلی مرقع بیان کیا ہے۔مزید جن اکابرین کا تذکرہ بیان کیا ہے ان کو حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب بگڑتے ہوئے معاشرے ک...
ہر مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے بعد مسلمانوں کے علماء، مجتہدین اور اولیاء صالحین کی محبت اختیار کرے، خاص کر وہ ائمہ اور علماء جو پیغمبروں کےوارث ہیں، آسمان کے ستاروں کی طرح خشکی و تری کی تاریکیوں میں راستہ دیکھاتے ہیں، مخلوق کے سامنے ہدایت کے راستے کھولتے ہیں۔ خاتم الرسل ﷺ کی بعثت سے پہلے جو امتیں تھیں ان کے علماء بد ترین لوگ تھے، مگر ملت اسلامیہ کے علماء بہترین لوگ ہیں۔ جب کبھی رسول اللہ ﷺ کی سنت مطہرہ مردہ ہونے لگتی ہے تو اس کو یہ علماء ہی زندہ کرتے ہیں، اوراسلام کے جسم میں ایک تازہ روح پھونکتے ہیں۔ اسی طرح چاروں ائمہ مجتہدین اور دوسرے علماء حدیث جن کی مقبولیت کے آگے امت سرنگوں رہتی ہے، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث اور سنت کی مخالفت کا اعتقاد دل میں رکھتا ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تذکرۃ الفقہاء (حصہ اول)‘‘ محمد عمیر الصدیق دریا بادی ندوی کی تالیف ہے۔اس کتاب میں امام بویطی شافعی سے امام ابو اسحاق اسفرائینی تک یعنی تیسری صدی ہجری سے پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کے چھبیس نامور فقہائ...