علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر سید سے ملے ان کا کتب خانہ ملا، یہاں تصانیف کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اردو ادب کے دامن کو تاریخ، سیرت نگاری، فلسفہ ادب تنقید اور شاعری سے مالا مال کردیا، سیرت نگاری، مورخ، محقق کی حیثیت سے کامیابی کے سکے جمائے 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ چلے گئے۔ 1913ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔مولانا شبلی کی شخصیت ایسی ہےکہ ان کی علمی ، تحقیقی، ادبی اور ملی خدمات کی وجہ سے ان کی حیات اورکارناموں کے بارے میں خود ان کی زندگی میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اورلکھا جارہا ہے کئی احباب نے مولانا شبلی کے حوالے سے تحریر کیے گئے مواد کو اشاریہ جات اورکتابیات کی صورت میں جمع کیا ہے ۔کیونکہ علم وتحقیق کےمیدان میں کتابیاتی لٹریچر کی اہمیت ، ضرورت اور افادیت اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔دورحاضر میں کتابیات اور اشاریہ سازی کےفن میں جو غیر معمولی ترقی ہوئی ہےاور علمی موضوعات پر جس طرح کا معیاری کتابیاتی مواد محققین کے سامنے آیا ہے کہ جس کی وجہ سے زیر بحث موضوع پر مطلوبہ معلومات تک رسائی اس حد تک آسان ہوگئی ہے کہ کسی بھی علمی وتحقیقی موضوع پر کام کرنے والا اسکالر آسانی سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ زیربحث موضوع پر اب تک کس قدر کام ہوچکا ہےا ور وہ کہاں دستیاب ہے۔اس سےمواد کی تلاش وجستجو کا کام بہت کچھ آسان ہوجاتا ہے۔ زیرنظر کتاب’’کتابیات شبلی‘‘ بھی اسی نوعیت کی ایک کڑی ہےجس میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی صاحب نے نہ صرف اس موضوع پر سامنے آنےوالے نئے لٹریچر کااحاطہ کیا ہےبلکہ بڑی محنت اور دقت نظر سے ان بہت سی پرانی تحریروں کابھی سراغ لگایا ہے جو ماہ وسال کی گرد کےنیچے دب کر نظروں سےاوجھل ہوچکی تھیں اور اس موضوع پر شائع ہونے والے اشاریہ ان کےذکر سے خالی تھے۔کتاب ہذا قدر شناسان شبلی کے لیے یہ ایک قیمتی تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے مولانا شبلی کی حیات اورخدمات کے موضوع پر اہل علم کی دلچسپی میں اضافہ ہو گا۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
حرف آغاز |
9 |
دیباچہ |
11 |
حصہ اول |
|
تصنیفات وتالیفات شبلی |
15 |
اردو کتب |
16 |
عربی کتب |
31 |
فارسی کتب |
31 |
مدونہ کتب ورسائل |
32 |
تلخیص تصنیفات شبلی |
39 |
تراجم تصنیفات شبلی |
41 |
اردو ترجمے |
41 |
انگریزی ترجمے |
42 |
بنگالی ترجمے |
45 |
پشتو ترجمے |
45 |
تاجک ترجمہ |
46 |
ترکی ترجمعے |
46 |
تمل ترجمہ |
47 |
عربی ترجمعے |
47 |
فارسی ترجمعے |
48 |
کنٹر ترجمہ |
50 |
مراٹھی ترجمہ |
50 |
ملیالم ترجمہ |
50 |
مضامین ومقالات اورخطبات شبلی |
51 |
حصہ دوم |
|
مطالعات شبلی |
75 |
کتب (اردو،عربی ) |
76 |
مجموعہ مقالات |
81 |
رسائل کےخصوصی شمارے |
83 |
ایم ،اے ،ایم ،فل ،پی ایچ ،ڈی کےمقالات |
84 |
مضامین ومقالات (بلحاظ موضوعات ) |
87 |
اثرات ومعنویت |
87 |
اردو زبان وادب |
88 |
اردو شاعری |
89 |
اساتذہ شبلی |
96 |
اسلوب نگارش |
96 |
اشاریہ شبلی |
98 |
شخاص رجال |
99 |
بحیثیت ادیب وانشاء برواز |
102 |
بحیثیت مصنف |
105 |
بحیثیت مورخ |
107 |
تحقیق وتنقید |
109 |
تذکرہ حیات خدمات |
115 |
تصنیفات کےترجمے |
129 |
تعلیمات |
130 |
تلامذہ |
131 |
حالی اورشبلی |
133 |
خراج عقیدت |
138 |
دریافت |
143 |
سرسید شبلی اورعلی گڑھ |
144 |
سوانح نگاری |
147 |
سیاسیات |
149 |
شبلی اقبال اورمحمد علی جناح |
151 |
شبلی اورابو الکلام آزاد |
152 |
شبلی اوراعظم گڑھ |
153 |
شبلی اورانجمن ترقی اردو |
154 |
شبلی اوربھوپال |
154 |
شبلی اورحیدر آباد |
155 |
شبلی اورعالم اسلام |
155 |
شبلی اورمغرب |
156 |
شبلی اورندوہ |
157 |
شخصیت اورکمالات |
159 |
عربی زبان وادب |
162 |
فارسی شعر وادب |
163 |
فتنہ تکفیر |
166 |
فکر ونظر |
167 |
قرآنیات |
171 |
مطائبات شبلی |
172 |
یادگار شبلی |
172 |
حصہ سوم |
|
تنقید وتجزیہ تصانیف شبلی |
177 |
اسکات المعتدی علی انصات المقتدی |
178 |
الانتقاد |
178 |
الجزیہ |
179 |
الغزالی |
179 |
الفاروق |
180 |
الکلام |
184 |
المامون |
186 |
الندوہ لکھنو |
187 |
انٹرنس کورسی فارسی |
188 |
اورنگزیب عالم گیر پر ایک نظر |
188 |
تاریخ بداءاسلام |
189 |
تذکرہ گلشن ہند |
190 |
خطبات شبلی |
190 |
خطوط شبلی |
190 |
دستہ گل |
192 |
دیوان شبلی |
193 |
رسائل شبلی |
193 |
سفرنامہ روم ومصروشام |
194 |
سوانح مولانا روم |
196 |
سیرۃ النبی |
198 |
سیرۃ النعمان |
203 |
شعر العجم |
205 |
علم الکلام |
209 |
کتب خانہ اسکندریہ |
211 |
کلیات شبلی ارودو |
211 |
کلیات شبلی فارسی |
212 |
مثنوی صبح امید |
212 |
مجموعہ نظم شبلی |
213 |
مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم |
213 |
مقالات شبلی |
213 |
مکاتیب شبلی |
216 |
موازنہ انیس ودبیر |
221 |
وقف علی الاولاد |
226 |
ہندی کتب ومضامین |
228 |
انگریزی کتب ومضامین |
232 |
حصہ چہارم |
|
اشاریہ مصنفین ،مترجمین /مقالہ نگار |
233 |