شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ 31مئی1945بروزجمعرات،شہر سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی، مولانا ابراہیم میر سیا لکوٹی کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے ذوق و شوق کی بنا پر9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن کریم سنا بھی دیا ۔ابتدائی دینی تعلیم ’’دارالسلام ‘‘ سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر جناب حافظ محمدگوندلوی کی درسگاہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے ۔ اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا ،جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر جناب مولانا شریف سواتی سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔ 1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ’’بی اے اونرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے مدینۃ الرّسولﷺمیں، ملتِ اسلامیہ کی عظیم عالمی یونیورسٹی’’ مدینہ یونیورسٹی ‘‘ میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں دوسرے پاکستانی طالبعلم تھے ۔ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں دنیا بھر سے 98 ممالک کے طلباء زیر تعلیم تھے۔وہاں آپ نے دنیائے اسلام اور تاریخ کے نامور ،معتبر اور وقت کے ممتاز علماء کرام سے علم حاصل کیا ،ان میں سرفہرست محدّث العصر امام ناصر الدین البانی ، مفسرِ قرآن الشیخ محمد امین الشنقیطی ، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعطیہ محمد سالم ،سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز ، محدّث ِ مدینہ علامہ عبد المحسن العباد البدر ۔ وغیرہ شامل ہیں۔آپ نے زمانہ طالب علمی کے دور میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں’’ القادیانیۃ دراسات و تحلیل ‘‘کے نام سے عربی میں ایک مدلل و منفرد کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب آپ کے اُن لیکچرز پر مشتمل ہے۔ جو ا ٓپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اپنی کلاس کے طلباء کو اپنے اساتذہ کی جگہ دئیے تھے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی سے اس اعزاز کے ساتھ فارغ ہوئے کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن پر رہے۔مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں ہی آسائشوں سے پرزندگی و اعلیٰ مرتبہ پر مشتمل منصبِ تحقیق و تدریس کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اپنی ذاتی زندگی پر دین ِ حق کی خدمت اور وطنِ عزیز کی اصلاح کو ترجیح دی اور یہ تڑپ لیکر وطنِ عزیز لوٹ آئے کہ کلمہ لا الٰہ الّا اللہ کے نام پر بنائے گئے اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے دین اور حکم کا بول بالا ہو اور اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر دن رات جد و جہد شروع کردی۔ وطن واپسی پر آپ نے ابتداءًتحریر کے ذریعہ دعوت دین کے کام کا آغاز کیا اور چٹان لیل ونہار اور ملک کے دیگر معروف و مشہور رسائل میں لکھتے رہے ۔ نیز ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘، ہفت روزہ’’ اہلحدیث ‘‘ کے مدیر بھی رہے ۔ اور ترجمان الحدیث کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ آپ نے ایک خطبۂ عید میں جنرل ایوب خان کے خلاف اپنی پہلی سیاسی تقریر کی ،پھر یہ سلسلہ جاری رکھا اور بھٹو دور میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، آپ پر کئی مقدمات بھی کئے گئے ۔ بنگلہ دیش مردہ باد تحریک میں آپ نے پھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ اپنے خطباتِ جمعہ و دیگر خطابات میں بھی بنگلہ دیش کے مسئلہ پر اپنی حب الوطنی کی خاطر دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے درد کو بیان کیا۔آپ نے مختلف ممالک کے تبلیغی سفر کیے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے علاوہ بیلجیم ،ہالینڈ ،سوئیڈن، ڈنمارک، اسپین ، اٹلی، فرانس ،جرمنی، انگلینڈ ،یوگو سلاوایا،ویانا،کھایا، نائجیریا، کینیا ،جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن ،ہانگ کانگ ،تھائی لینڈ،امریکہ،چین ،بنگلہ دیش، ایران، افغانستان اورہندوستان میں مختلف عالمی علمی کانفرنسوں سے خطاب کیا ۔ عرب ممالک تو آپ کا آنا جانا ایک معمول اور روز مرہ کا کام تھا ، اسی طرح یورپ امریکہ اور افریقہ کے اسفار کا حال تھا ۔ اتنے اژدہام دعوتی و تبلیغی اور ادارتی مصروفیات کے باوجود آپ نے عربی ادب میں شاندار اضافہ کیا ہے اوربھاری بھرکم کتب تالیف فرماکرعالمِ عرب میں اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔علامہ شہید کی کتب کودنیا بھر کے علمی وعوامی حلقوں میں یکساں مقبولیت کا شرف حاصل ہوا، اور بہت بڑی تعداد کو علامہ شہید کی کتب سے بتوفیق اللہ راہِ ہدایت نصیب ہوئی یہی وجہ ہے کہ علامہ کی اکثر کتب کے تراجم اردو ، فارسی و دیگر عالمی زبانوں میں موجود ہیں ۔آپ نے جس موضوع یا جس باطل فرقہ پر قلم اٹھایا اللہ کے فضل و کرم سے اس کا حق ادا کر کے دکھایا اور آج تک آپ کی کسی بھی کتاب کا کوئی علمی جواب نہیں دے سکا۔23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی ﷺ میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی تقریر کے بعد جناب علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا ،آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا، ابھی آپ 20منٹ کی تقریر کرپائے تھے کہ بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا ،تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ،دور دور تک دروبام دھماکے سے لرز اٹھے، ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا، دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت، بزدل دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا ،اس دھماکہ میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور میوہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ 29 مارچ کو سعودی ائیر لائن کی خاص پرواز کے ذریعہ شاہ فہد کی دعوت پر سعودیہ عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملیٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا، ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن آپ کا وقتِ موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھنٹے ریاض میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد قافلہ شہداء میں شامل ہوئے .(انا للہ و انا الیہ راجعون)مفتی اعظم سعودیہ عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے دیرہ ریاض کی مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی ۔ نمازِ جنازہ کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو شہرِ حبیب ﷺمدینہ منورہ لے جایا گیا، مسجدِ نبوی میں دنیا ئے اطراف سے آنے والے وفود و شیوخ،مفتیان، اساتذہ علماء اور طلباء کی وجہ سے مسجد نبوی میں انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا اور تا حد نگاہ سر ہی سر دیکھائی دیتے تھے اژدہام کا یہ عالم تھا کہ آپ کا آخری دیدار کرنا محال تھا ۔مدینہ طیبہ میں ڈاکٹر شمس الدین افغانی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مدینہ یونیورسٹی کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کے علاوہ سعودی عرب کے اطراف سے ہزاروں علماء کرام ، طلباء و عوام اشکبار آنکھوں سے جنازے میں شامل تھے ۔ آپ کے جسد خاکی کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ کی قبر امام مالک کی قبر کے پہلوں میں ہے جس کی دائیں طرف رسولِ رحمت ﷺ کی ازواجِ مطہرات مؤمنوں کی ماؤں ؓن اجمعین کی مبارک قبر یں ہیں اور تھوڑے فاصلے پر رسولِ اکرم ﷺ کے لخت جگر جناب ابراہیم کی قبرِ مبارک ہے ۔علامہ کی شہادت کے بعد ان کی حیات وخدمات پر مختلف اہل علم نے بیسیوں مضامین تحریر کیے اور ہر سال ماہ مارچ میں کوئی نیا مضمون اخبار ، رسائل وجرائد کی زینت بنتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں سوانح حیات علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ‘‘ علامہ شہید کے رفیق خاص اور اسی حادثہ میں شہادت کا رتبہ پانے والے بانی مکتبہ قدوسیہ مولانا عبدالخالق قدوسی شہید کے فرزند ارجمند جناب ابو بکرقدوسی صاحب(ڈائریکٹر مکتبہ قدوسیہ،لاہور ) کی تصنیف ہے ۔میرے علم کے مطابق علامہ شہید کی حیات وخدمات کے متعلق مختلف اہل قلم کی تحریروں پر مشتمل بعض مجلات کے خاص نمبر تو شائع ہوئے ہیں لیکن ایک ہی قلم سے تحریر شدہ اردو زبان میں اتنی ضخیم کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی یہ سعادت جناب ابوبکر قدوسی صاحب نے ہی حاصل کی ہے ۔کتاب کےابتدائی صفحات تو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی مکمل زندگی چند تصویروں میں بیان کردی گئی ہے۔اور شروع میں علامہ شہید کے متعلق عالم اسلام کی نامور شخصیات کے تاثرات شامل کرنے سےکتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فاضل مصنف نے علامہ شہید کی زندگی میں پیش آنے والے حالات وواقعات اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں ، تصنیفی، دعوتی ، تبلیغی خدمات اوران کی بصیرت افرزو سیاسی وجماعتی کوششوں وکاوشوں،علمی جلالت وعظمت اور حفظ قرآن سے عالم اسلام کی عظیم ترین درسگاہ جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منورہ تک علمی سفر کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ علامہ شہید کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطافرمائے ۔اور مصنف کتاب ابو بکر قدوسی صاحب کے علم وعمل اور زور قلم میں اضافہ فرمائے ۔(آمین)
عناوین |
صفحہ نمبر |
سخن ہائے گفتنی |
15 |
کچھ ستارے کبھی غروب نہیں ہوتے |
19 |
مدینہ یونیورسٹی |
41 |
علامہ شہید کے اساتذہ کرام |
73 |
پاکستا ن واپسی |
81 |
مسافر کا نیا بسیرا لاہور |
85 |
ادارہ ترجمان السنہ |
95 |
مسجد چینیانوالی |
101 |
میدان سیاست میں |
105 |
اقلیم خطابت کا تاجدار |
149 |
کتابیں ہیں چمن اپنا |
169 |
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول |
195 |
لارنس روڈ |
281 |
اہل حدیث یوتھ فورس |
283 |
رمضان کی راتیں |
291 |
نوابزادہ نصراللہ خاں اور علامہ شہید |
307 |
ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت ) |
313 |
جنرل ضیا ء الحق اور علامہ شہید |
329 |
جلسہ ہائے عام |
337 |
علامہ احسان الہی ظہیر شہید کا ایک خواب |
349 |
شریعت بل |
385 |
ایسا کہاں سے لاہیں کہ تجھ سا کہیں جسے |
395 |
23مارچ 1987 |
425 |
علامہ شہید ؒ کا گھرانہ |
463 |
احتجاجی تحریک |
465 |
علامہ شہید ؒ کو کس نے قتل کیا |
475 |