زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر طارق عبدالحلیم اور ڈاکٹر محمد العبدہ کی عربی کتاب ’’الصوفیۃ وتطورھا‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں صوفیت ،صوفیائے کرام ،ان کی عبادات وفضائل اور صوفیت کی آڑ میں توحید و رسالت اور کتاب وسنت کی پامالی کا سرسری جائزہ ہے ۔تصوف اور اہل تصوف کی چیرہ دستیوں،کتاب وسنت کے دلائل کی تضحیک و روگردانی کو عیاں کرنے کے لیے ایک عظیم کتابی مجموعہ کی ضرورت ہے ۔علمائے اہل حق نے ہر دور میں باطل نظریات کے حامل فرقوں کی سرکوبی کے لیے تعلیم و تعلم او رتحریرو تقریر کے ذریعے کما حقہ اپنا جاندار کردار ادا کیا ہے ۔لیکن منہ زور فتنے بھی اپنی پوری تابانی سے قائم و دائم چلے آرہے ہیں ۔اسلام کے ابتدائی ادوار میں اس کی شان وشوکت اور رعب داب کی وجہ سے یہودونصاری کے لیے اہل اسلام سے انتقام لینا اور انہیں زیر کرنا تو محال تھا۔سو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے نظریات وعقائد کو کمزور کرنے اور انہیں اسلام کی روح (کتاب وسنت) سے دور کرنے کے لیے عبداللہ بن سبا(یہودی) نے دینی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں کفریہ وشرکیہ عقائد راسخ کرنے کا تہیا کیا اور بڑی مہارت اور چابکدستی سے اس نے لوگوں میں غلط نظریات کی ترویج شروع کردی ۔حتی کہ خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب کے دور میں کچھ ایسے افراد تیار کیے جو یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ علی ؓمعاذ اللہ حقیقی خدا ہیں اور انسانیت کے روپ میں زمین پر جلوہ افروز ہیں ۔پھر اس سلسلہ نے تصوف کا لبادہ اوڑھا اور سادہ لوح مسلمانوں میں یہ بات مشہور کی کہ دین کی تقسیم دو طریقوں پر ہے۔(1)شریعت (2)طریقت ۔شریعت کتاب وسنت کا علم ہے اور طریقت باطنی علم ہے جوسینہ بہ سینہ حسن بصری سے علی ؓاور علی ؓسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔جب کہ کتاب وسنت کے دلائل اس تقسیم کا رد کرتے ہیں اور صحیح مسلم میں مروی روایت میں علی ؓاس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ان کے پاس شریعت کے سوا کوئی باطنی علم نہیں جس کی رسول اللہ ﷺ نے انہیں خاص تعلیم دی ہو ۔لیکن تصوف کی بنیاد ہی جھوٹ ،دھوکہ ،ملمع سازی اور ذاتی خواہشات کی ترویج ہے۔لہذا کتاب وسنت کے دلائل ان کے نظریات میں آڑھ اور رکاوٹ نہیں بن سکتے۔پھر تصوف میں نظریہ وحدۃ الوجود وحدۃ الشھود اور حلول ایسے کفریہ اور شرکیہ عقائد ہیں جو اصل توحید کے سراسر منافی ہیں اور ابن عربی کے اصول کے اصل چیز محبت ہے ۔اسلام ،شرک ،کفر ،یہودیت وعیسائیت میں کوئی فرق نہیں ہے ان کی اسلام دشمنی اور بد عقیدگی کی صریح علامت ہے ۔
لقد صارقلبی قابلاً کل صورۃ۔فمرعی لغزلان ودیر لرھبان
وبیت الاوثان وکعبۃ طائف ۔والواح الطوراۃ ومصحف قرآن
ادین بدین الحب انی توجھت ۔رکائبہ فالحب دین وایمانی
’’میرا دل ہر صورت قبول کر لیتا ہے ،ہرن کی چراگاہ ہو ،راہب کی کٹیا ہو ،بت کدہ ہو یا طواف کرنے والے کا کعبہ ،تورات کی تختیاں ہوں یا قرآنی مصحف (یہ سب برابر ہیں )میں دین محبت کا پیروکار ہوں اس کی کے سوار جہاں چلے جائیں محبت ہی میرا دین و ایمان ہے۔‘‘
ایسے واہیات تصورات کو دین کا رنگ دینا اس کی ترویج میں دشت دشت پھرنا اور دنیا ہی میں خود کو جنت الفردوس کا وارث خیال کرنا کتاب وسنت سے دوری اور شیطانی غلبے کا شاخسانہ ہے ۔تصوف کیا ہے صوفیاء کے گھناؤنے کردار،انکے غلط نظریات اور بدعات کو جاننے کےلیے زیر نظر کتاب کا ضرور مطالعہ کیجئے جس سے تصوف و اہل تصوف کی دین سے بیزاری اور بد کرداری آیاں ہو جائے گی۔نیز اس کتاب میں اہل تصوف کا عامیوں کو پھانسنے کا عظیم گر بناوٹی کرامات کا بیان بھی ہے ۔جس کی آڑ میں عام لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے اور دین سے دور کیا جاتاہے ۔ایسی کرامات جس سے توحید پر زد آئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ زمین و آسمان اور عرش و فرش پیرولی کی دسترس میں ہے یہ کیونکر کرامت ہو سکتی ہے ۔کرامت کی حقیقت حال جاننے کے لیے صوفیاء کے امام ابو یزید بسطامی کا قول ضرور ملاحظہ کریں ۔پھر کسی کی ولائت تسلیم کریں ۔فرماتے ہیں :
’’لو نظرتم الی رجل اعطی من الکرامات حتی یرتفع فی الھواء فلا تغتروا بہ حتی تنظروا کیف ہو عندالامر والنہی وحفظ حدودالشریعۃ۔[میزان الاعتدال:جلد 2صفحہ 346]
’’اگر تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے بے شمار (بناوٹی )کرامات حاصل ہیں ۔حتی کہ وہ ہوا میں بلند ہوتاہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ جب تک اسے آزما نہ لو کہ وہ اوامر ونواہی اور حدود شرعیہ کا کتنا پابند ہے۔
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
پہلا باب |
|
20 |
صوفیت کی ترقی |
|
20 |
پہلی فصل |
|
21 |
دوسری فصل: ابتدائی صوفیہ |
|
27 |
ابتدائی تصوف |
|
29 |
اس مرحلہ سے متعلق ہمارا تبصرہ |
|
32 |
تیسری فصل:اصطلاحات اور غیر یقینی صورت حال |
|
38 |
اس کے سنگین نتائج |
|
43 |
چوتھی فصل :صوفیہ اور وجودیہ |
|
45 |
دوسرا باب |
|
56 |
صوفیاء کی بدعات |
|
56 |
پہلی بحث : شریعت و حقیقت یا شریعت وطریقت |
|
57 |
دوسری بحث: حقیقت ( طریقت) محمدی |
|
63 |
تیسری بحث : وحدت ادیان |
|
65 |
چوتھی بحث: اولیاء اور کرامات |
|
69 |
پانچویں بحث: اقطاب و اتاد |
|
78 |
چھٹی بحث: بکواسیات اور نامعقولیات |
|
81 |
دوسری فصل: صوفیاء کی عملی بدعات |
|
87 |
دوسری بحث:علم حدیث اور صوفیاء |
|
92 |
تیسری بحث : ہڈ حرامی اور بگاڑ |
|
95 |
چوتھی بحث : سماع اور ذکر |
|
98 |
پانچویں بحث : صوفیاء اور جہاد |
|
100 |
آج کل کے صوفیاء |
|
104 |
اختتامی کلمات |
|
109 |
لاحقہ |
|
118 |
طریق رفاعی کی خلوت نشینیاں |
|
120 |
طریقہ تیجانیہ میں جوہرۃ الکمال کا ورد |
|
121 |
ابوسلیمان الدارانی کے کلمات |
|
122 |
حلاج کے حالات زندگی |
|
122 |
ثبت المراجع |
|
124 |