حضرت مولانا محمد نافع صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی متعدد تالیفات کے ذریعے سے حضرات صحابہ کرام کے حقیقی سیرت و کردار کو مستحکم علمی اور تاریخی دلائل کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ جن انصاف نا آشنا حلقوں نے ان حضرات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کیے ہیں ان کا شافی اور اطمینان بخش جواب دیا ہے اور حضرات صحابہ کرام کے درمیان جو علمی اور سیاسی اختلافات پیش آئے، ان کے حقیقی اسباب کی دلنشیں وضاحت فرمائی۔ حضرت معاویہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن کے خلاف اعتراضات و مطاعن کے ترکش سے کوئی تیر بچا کر نہیں رکھا گیا۔ زیر تبصرہ کتاب ’سیرت امیر معاویہ ؓ‘ میں حضرت مولانا محمد نافع صاحب نے ان کی سیرت کے حقیقی روشن پہلوؤں کو مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ یہ مولانا کی کاوش کا دوسرا حصہ ہے جو ان مطاعن کے جواب کے لیے مخصوص ہے جو حضرت معاویہ ؓپر مختلف حلقوں کی طرف سے وارد کیے گئے ہیں۔ فاضل مؤلف نے ایک ایک کو موضوع بحث بنا کر بڑی جانفشانی کے ساتھ حقائق کی تحقیق کی ہے اور مستحکم دلائل سے اپنے موقف کو ثابت کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی صاحب علم محقق کو مؤلف کے اخذ کردہ نتائج سے کسی مقام پر جزوی اختلاف ہو، لیکن یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ موصوف نے افراط تفریط سے الگ رہ کر اہل سنت کے صحیح موقف کی ترجمانی کی ہے اور اس موضوع پر تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔ ہر بات تاریخی تاریخی حوالوں سے مزین ہے، بلکہ انھوں نے صرف اہل سنت ہی کے نہیں، بلکہ اہل تشیع کے ماخذ سے بھی اپنے موقف کو ثابت کیا ہے جن پر ان کی بڑی وسیع اور گہری نظر ہے۔(ع۔م)
حضرت مولانا محمد نافع صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی متعدد تالیفات کے ذریعے سے حضرات صحابہ کرام کے حقیقی سیرت و کردار کو مستحکم علمی اور تاریخی دلائل کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ جن انصاف نا آشنا حلقوں نے ان حضرات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کیے ہیں ان کا شافی اور اطمینان بخش جواب دیا ہے اور حضرات صحابہ کرام کے درمیان جو علمی اور سیاسی اختلافات پیش آئے، ان کے حقیقی اسباب کی دلنشیں وضاحت فرمائی۔ حضرت معاویہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن کے خلاف اعتراضات و مطاعن کے ترکش سے کوئی تیر بچا کر نہیں رکھا گیا۔ زیر تبصرہ کتاب ’سیرت امیر معاویہ ؓ‘ میں حضرت مولانا محمد نافع صاحب نے ان کی سیرت کے حقیقی روشن پہلوؤں کو مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ پہلی جلد کے پہلے حصے میں حضرت معاویہ کے سوانح، عہد رسالت میں ان کے منصب و مقام اور کارنامے اور ان کے مناقب کی احادیث کو پوری تحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں حضرات خلفائے ثلاثہ کے عہد مبارک میں حضرت معاویہ کی خدمات اور دیگر کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے حصے میں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد کے واقعات زیر بحث لائے گئےہیں۔ چوتھے اور آخری حصے میں فاضل مؤلف نے حضرت معاویہ کے عہد خلافت کے کارناموں، فتوحات، ان کے قائم کیے ہوئے انتظامی ڈھانچے، ان کی رفاہی اور ترقیاتی خدمات، ان کی علمی کاوشوں، ان کے مکارم اخلاق اور اہل بیت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا ذکر ہے۔ آخر میں حضور اقدسﷺ کے ساتھ ان کے عشق و محبت کے مظاہر اور ان کے بارے میں اکابر امت کی آرا نہایت تفصیل اور استقصا کے ساتھ پیش کی ہیں۔(ع۔م)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
صحابہ کرام ؓ کا مقام اور صحبت نبوی کا شرف وفضیلت |
|
452 |
بدگوئی اور بدزبانی کرنے والے کا حکم |
|
455 |
تاریخ کے راویوں کا نظریاتی کردار |
|
463 |
بعض قواعد وضوابط |
|
464 |
ایک اصول(متعلق معصومیت) |
|
465 |
طاعنین کی اصناف واقسام |
|
466 |
ایک معذرت |
|
467 |
طلقاء کی بحث |
|
481 |
ملوکیت کا شبہ اوراس کا ازالہ |
|
535 |
ایک شاذ روایت کا جواب |
|
554 |
عمرو بن حمق کا قتل |
|
592 |
شرب خمر کا الزام |
|
649 |
بیت المال کے اموال کی بحث |
|
687 |
مقصورہ میں نماز ادا کرنا |
|
708 |
طعن کی ایک اور روایت اور اس کا جواب |
|
747 |
برہنہ لونڈی پیش کرنے کا اعتراض اور رقص وسرود کی مجالس کا طعن |
|
774 |
مصادر ومراجع |
|
784 |