شاہ ولی اللہ محدث دہلوی برصغیر کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں۔ آپ بنیادی طور پر حنفی المسلک تھے۔جس دور میں آپ پیدا ہوئے وہ تقلیدی جمود کا دور تھا اور فقہ حنفی کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔شاہ ولی اللہ جیسے ماہر فقہ نے اسی مکتبہ فکر میں پرورش پائی تھی۔ لیکن جب آپ حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو وہاں عرب شیوخ سے درس حدیث لیاجس سے آپ کی طبیعت میں تقلیدی جمود کے خلاف ایک تحریک اٹھی۔چنانچہ وہاں سے واپسی پر آپ نے سب سے پہلے برصغیر کے عوام کو اپنی تحریروں سے یہ بات سمجھائی کہ دین کو کسی ایک فقہ میں بند نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ چاروں اماموں کے پاس ہے۔ یہ جامد تقلید کے خلاف برصغیر میں باضابطہ پہلی کوشش تھی۔اس کے بعد شاہ صاحب نے ساری زندگی قرآن و سنت کو عام کرنے کے لیے وقف کردی۔آپ نے اپنی معروف کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب انسانوں کے شخصی اور اجتماعی مسائل، اخلاقیات، سماجیات او راقتصادیات کی روشنی میں فلاح انسانیت کی عظیم دستاویز کا خلاصہ ہے۔اصل کتاب عربی میں ہے جس کا متعدد اہل علم نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔اور اس وقت ضرورت تھی کہ اس کی کوئی شرح بھی ہو تی چنانچہ مولف نے یہ کمی پوری کر دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ" دار العلوم دیوبند کے استاذ مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب کی تصنیف ہےجس میں انہوں نے شاہ صاحب کی اس عظیم الشان تصنیف کی شرح کر دی ہے۔یہ کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور افادیت کے پیش نظر اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف، مترجم اور شارح سب کی اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عناوین |
صفحہ نمبر |
فہرست مضامین |
3۔18 |
سخن ہائے گفتنی |
19۔23 |
حجۃ اللہ البالغہ کے مضامین کاتعارف |
19 |
شاہ صاحب حنفی ضرور ہیں مگر جامد مقلد نہیں ہیں بلکہ محقق حنفی ہے |
21 |
شاہ صاحب شیخ ابو طاہر کردی ،مدنی ،شافعی سے بے حد متاثر ہوئے ہیں |
22 |
یہ خیال سراسر غلط ہے ک شاہ صاحب تقلید سے بے زار تھے |
22 |
رائے گرامی :حضرت مولانا محمد سالم صاحب زیر فضلہ |
24 |
رائے گرامی :حضرت مولانابرہان الدین صاحب سنبھلی زید مجدہ |
25 |
رائے گرامی :حضرت مولانا ڈاکٹر عبداللہ ندوی زید مجد ہم |
26 |
رائے گرامی :حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی زید مجدہ |
28 |
کتاب کاآغاز |
31 |
مبحث ششم سیاست ملیہ کابیان |
|
با ب (1)ملتیں استوار کرنے والے دینی راہ نماؤں کی ضرورت |
31 |
ملتوں کے قیام وبقاء کے لئے دینی راہ نماضروری ہیں |
32 |
دینی راہ نما (عالم دین )کے لئے ضرو رتیں |
37 |
دینی راہ اصلاح کے طریقے وجدان سے جانتے ہیں |
38 |
نبی کاوجدان بحکم وحی ہے |
39 |
علماء کےوجدانیات از قبیل اجتہادات ہیں |
39 |
یہ کیسے معلوم کیاجائے کہ وجدانیات صحیح ہیں؟ |
39 |
وجدانی علم حاصل ہونے کی دوصورتیں |
40 |
وجدانی علوم لوگوں کو کیسے باور کرائے جائیں؟ |
40 |
باب (2)نبوت کی حقیقت اور اس کی خصوصیات |
43۔75 |
غیب سے علم حاصل کرنے کی صورتیں |
43 |
مفہم کی تعریف ،مفہمین کامرتبہ اور ان کی سیرت کے بارہ عناصر |
43 |
مفہمین کی آٹھ قسمیں :کامل حکیم خلیفہ موید بروح القدوس ہاوی مزگی اما م مندراور نبی |
46 |
نبیوں میں سب سے بڑا مقام اس نبی کاہے جس کی بعثت دوہری ہے یعنی جس کی امت بھی مبعوث ہے اور مفہمین کے تمام انواع کاجامع ہے (نہایت اہم بحث) |
50 |
بعثت انبیاء کے اسباب اور ان کی اطاعت کاوجوب |
56 |
نبی کی پیروی ہر حال میں ضروری ہے اگرچہ لوگ راہ راست پر ہوں |
61 |
بعثت رسل سے تما م حجت ہوتاہے |
62 |
نبوت کے معاملہ کی مثال سے وضاحت |
63 |
اہم معجزات کے اسباب |
65 |
چیزوں میں برکت وطرح سے ہوتی ہے |
65 |
عصمت انبیاء کابیان |
68 |
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ واسلام کامنہاج تعلیم وتربیت |
70 |
باب (3)تما م سماوی مذاہب کی اصل ایک ہ او رقوانین ومناہج مختلف ہیں |
76 |
اصل دین کیاہے اور منہاج وشریعت کیا ہے |
79 |
آئین وشریعت کی ضرورت کیوں ہے |
82 |
شریعت کسی طرح تشکیل پاتی ہے |
86 |
شریعت کا فیصلہ بعثت کے فیصلہ میں مضمر ہوتاہے |
91 |
باب (4)وہ اسباب جن کی وجہ سے مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کے لئے مخصوص شریعتیں نازل ہوئی ہیں |
93 |
پانچ نصوص جواختلاف شرایع کے اسباب پر دلالت کرتی ہیں |
63 |
شریعتوں میں اختلاف کے چار اسباب |
98 |
اختلاف شرائع کےاسباب کثیرہ کامرجع وہ انواع ہیں |
104 |
نوع اول کابیان یعنی اختلاف شرائع کے وہ اسباب جوفطری امر کی طرح ہیں |
104 |
شریعتوں میں مستخضر اور غیر متحضر سبھی علوم کااعتبار ہوتاہے |
109 |
نزول شرائع میں لوگوں کے عام وخاص دونوں قسم کے علوم کادرجہ اعتبار کای جاتاہے |
113 |
اکثرنبوت کسی ملت کے ماتحت ہوتی ہے (اختلاف شرائع کی ایک او روجہ ) |
114 |
دوسری نوع کابیان یعنی اختلاف شرائع کے وہ اسباب جوعارضی او رطاری ہیں |
116 |
عارضی اسباب میں بنیادی سبب پیغمبر کی خصوصی توجہ اور دعاہے |
118 |
عارضی اسباب کی مثال |
119 |
عارضی اسباب کم سے کم پائے جائیں تو بہتر ہے |
119 |
باب (5)شریعتوں پر مواخذہ کے اسباب |
123 |
مجاز ات :اخلاق وملکات پر ہوگئ یااعمال ظاہر ہ پر ؟ |
123 |
حق بات یہ ہے کہ ثواب وعقاب کاترغیب ظاہری اعمال پر ہوگا اور اعمال میں یہ شان سات وجوہ سے پیدا ہوئی ہے |
127 |
مجازات میں اعمال ظاہر ہ کے ساتھ نیتوں کابھی اعتبار ہاے |
135 |
قو م کو ڈبوکر آدمی حر نہیں سکتا |
137 |
باب (6)حکم اور علت کے رموز |
138 |
حکم کابیان احکام کاراز |
138 |
حکم کی تعریفات اور مطالبہ او رممانعت کی دوصورتیں |
139 |
احکام خمسہ ،وجوب،ندب،اباحت،کراہیت او رتحریم |
140 |
اصولیوں کے نزدیک حکم کی تعریف |
142 |
علت کابیان علت کی تعریف ارو علت کاراز |
143 |
حکم کی بنیادی دو قسمیں حکم تکفی اور حکم وضعی |
145 |
حکم وضعی کی پانچ ہے،علت ،سبب ،شرط،علامت ،او رمائع |
145 |
علت کی اقسام |
146 |
کبھی لوازم علت کوعلت بنایا جاتاہے |
151 |
علت واضح چیز ارو بنیادی مصالح کامظنہ ہونی چائیے |
154 |
جس وصف کو علت بنایا جائے اس میں کوئی وجہ ترجیج ہونی چاہئے |
155 |
وجوہ ترجیج پانچ ہیں تاثیر ظہور انضباط عدم مخلف او رمناسبت |
156 |
علت دریافت کرنے کاطریقہ سیروتقسیم |
157 |
باب (7)ارکان اور آداب وغیرہ تجویز کرنے کی حکمتیں |
157۔177 |
سب عبادتیں اور ان کے اجزا ء یکساں کیوں نہیں |
157 |
ارکان وشرائط کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے |
160 |
فرائض میں محلوظ اصولی باتیں |
166 |
طاعات کی اعلی اور ادنی حدکی وضاحت |
167 |
آداب کی تعین کی پہلی مصلحت (مثبت پہلو سے ) |
169 |
آداب کی تعیین کی دوسری مصلحت (منفی پہلو سے ) |
171 |
فرض کفایہ کی تعیین کی مصلحتیں |
175 |
باب (8)عبادتوں کے لیے تعیین اوقات کی حکمتیں |
178۔193 |
تین اصول جن پر تعیین کی حکمتیں مبنی ہیں |
178 |
اصل اول:عبادت کے لئے وہ اوقات مناسب ہیں جن میں روحانیت پھیلتی ہے |
178 |
ظہور روحانیت کے اوقات اور نمازوں کے لئے ان کی تعیین |
181 |
اصل دوم:عبادت کےلئے مناسب اوقات وہ ہیں جو عبادت گذاروں کے احوال کے مطابق ہوں |
187 |
اصل سوم :تعیین اوقات میں مرعی امور چار ہیں |
191 |
باب (9)اعداد ومقاویر کی حکمتیں |
194 |
اصل اول :طاق عددکی رعایت |
194 |
طاق عدد ایک مبار ک عدد ہے (دلیل نقلی وعقلی) |
194 |
مقاویر شرعیہ میں ایک تین سات اور ان سے ترقی یافتہ عددلے گئے ہیں |
196 |
ایک عدد ہے یانہیں اصول اعداد 1۔9ہیں باقی تمام اعداد فروعات ہیں |
196 |
ایک تین اور سات ہی ایسے طاق اعداد ہیں جو وجوہ طاق ہیں |
197 |
اعداد کوتر قی دینے کاطریقہ |
197 |
اصل دوم :ترغیب وترہیب وغیرہ کے اعداد کی حکمتوں کے لئے ضوابط |
202 |
پہلاضابط:کبھی عددوقتی اطلاع کے مطابق ذکر کیا جاتا ہے حصر مقصود نہیں ہوتا |
202 |
دوسر ا ضابطہ کبھی عدداجتہاد سے مقرر کیاجاتاہے |
205 |
تیسر اضابطہ :کبھی عددیامقدار بطور تمثیل ذکر کی جاتی ہے |
209 |
اصل سوم :جومقدر متعین کی جائے وہ واضح اور معلوم ہونی چاہیے |
310 |
کسر،جز،منطق،اصم ،کی تعریفات |
210 |
فرائض کے سہام کابیان |
211 |
تعیین مقدار کے تین اور ضابطے |
212 |
رکات کی مقداریں اور ان کی حکمتیں |
214 |
مالداری کی تعیین کیسے کی جائے |
214 |
مائے کثیرہ کاانداز ہ قلیتن سے کیا گیاہے |
215 |
باب (10)قضاءاور رخصت کی حکمتیں |
217۔228 |
احکام تکلیفہ کے لحاظ سے بندوں کی دوحالتیں |
217 |
جوہر عمل سے زیادہ عمل کی ظاہری صورت مطلوب ہے |
217 |
جب ادفوت ہوجائے توقضا ضروری ہے اور ادائیگی میں دشواری ہوتو رخصت ضروری ہے |
218 |
نفس کو قابو میں لانے کاطریقہ |
219 |
رخصتوں کے تین اصول |
222 |
اصول اول :رخصت ارکان وشروط کے اصلی درجہ میں نہیں تکمیلی درجہ میں دی جاتی ہے |
222 |
اصل دوم :رخصت میں بدل ایسا تجویز کی جائے جواصل کو یاددلائے |
225 |
اصول سوم :ہرتنگی باعث رخصت نہیں صرف کثیر الوقوع تنگی جس میں ابتلاء عام ہوباعث رخصت ہے |
225 |
رخصت کی ایک صورت بہ بھی ہے کہ ایک وقت حکم اٹھا دیاجائے |
226 |
باب (11)ارتفاقات کی رائج کرنا اور ریت ورواج کی اصلاح کرنا |
229 |
صالح ارتفاقات کی رائج کی ترغیب دینا او رباطل رسوم کو مٹانا مقاصد نبوت میں داخل ہے |
229 |
ارتفاق ثانی اور ثالث کی رائیگاں کرنااللہ کی مرضی نہیں ہے |
232 |
ارتفاقات پیش لفظ کرنے میں انبیاءکاطریقہ ہے |
235 |
ارتفاقات او رعیش کوشی |
239 |
بڑے جھگڑوں کاسدباب مقتول کےخون کامطالبہ میراث کے معاملات اور سود کامعاملہ |
246 |
چھوٹے نزاعات کے لئے ضوائط |
248 |
باب (12)بعض احکام سے بعض احکام کاپیدا ہونا |
250 |
اقتضاء اور ایماء کے معانی |
250 |