اسلام کا نظام ِ حکومت سیاسی دنیا کےلیے ناموسِ اکبر ہے حاکمیت کی جان ہے ۔ اسلامی نظام حکومت کا مآخذ اللہ کاآخری قانون ہے۔تمام برائیوں کا خاتمہ کرتاہے اور تمام بھلائیوں کاحکم دیتا ہے جو انسان ِ کامل کو اللہ تعالیٰ کا نائب بناتا ہے۔ اوراسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی حکومت کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضہ ہے ۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور حکومت کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’اسلام کا نظام حکومت‘‘ امام ابو الحسن الماوردی کی مشہورومعروف کتاب ’’ الاحکام السلطانیہ ‘‘ کا اردور ترجمہ ہے پروفیسر ساجد الرحمٰن صدیقی نے اسے اردو قالب میں منتقل کیا ہے ۔امام ماوردی نے اس کتاب کو بیس ابواب میں تقسیم کر کے ان میں اسلامی حکومت کے خدو خال اور طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کیا ہےان ابواب میں سے امام ،وزراء ،فوجی سپہ سالاروں ،کوتوالی کا تقرراور عدالت ،اشراف کی دیکھ بھال،امامت نماز ،امارت حج،صدقات،جزیہ وخراج کے عائد کرنے کے ضوابط اور دفاتر کا قیام اور ان کے احکام وغیرہ جیسے ابواب قابل ذکر ہیں۔اللہ تعالیٰ مؤلف،مترجم وناشرین کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور ہمیں اسلامی نظام حکومت جیسی نعمت سے سرفراز فرمائے۔الاحکام السلطانیہ کا ایک ترجمہ ہے مولوی سید محمد ابراہیم صاحب نے بھی کیا ہےیہ ترجمہ بھی کتاب وسنت سائٹ پر موجودج ہے ۔ ( م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
امامت |
9 |
انتخابی ادارہ |
10 |
امام کے انتخاب کاطریقہ |
12 |
اہل رائے کےفرائض |
14 |
امامت کے لیےموزوں ترین شخص |
15 |
باضابطہ بعیت |
16 |
بیک وقت دوافراد کی امامت |
17 |
امام کی جانشینی کامسئلہ |
19 |
دلی عہدی کےشرائط |
20 |
باپ یابیٹے کی ولی عہدی |
21 |
ولی عہدی کےاحکام |
22 |
حضرت عمرؓ کی رائے |
24 |
شوراکافیصلہ |
25 |
ایک سےزیادہ جانشین نامزدکرنا |
27 |
ترتیب پر عمل |
29 |
اعلان خلافت |
31 |
مسلمانوں کاسربراہ خلیفہ |
32 |
خلیفہ کے فرائض |
33 |
امام کےعزل کےاسباب |
36 |
جسمانی نقائص |
37 |
مانع امامت نقائص |
37 |
نقائص جن سےامامت میں کوئی حرج نہیں ہوتا |
38 |
نقائص جن کاحکم مختلف ہے |
38 |
اعضاءکافقدان |
39 |
امام اپنے فرائض منصبی کی تکمیل سےعاجز ہونا |
41 |
امام کےمقررکردہ عہدہ دار |
44 |
وزارت |
45 |
وزارت کی قسمیں |
45 |
وزیرکےاوصاف |
46 |
وزیرکےتقرر کاطریقہ |
47 |
وزیرکےمعنی |
50 |
وزیرکیسےاختیارات |
50 |
وزرات تنقیذ |
52 |
متعددوزراءکاتقرر |
56 |
وزراءکےاختیارات |
58 |
گورنروں کےتقرر |
|
امارت کےشرائط |
61 |
امیر کے اختیارات |
62 |
امارت خاصہ |
63 |
مظالم کےمعاملات |
65 |
امیر کےدیگر اختیارات |
65 |
امارت عامہ کےشرائط |
66 |
امارت استیلاء |
67 |
امیراستیلاءکی ذمہ داری |
67 |
دونوں قسم یک امارت کافرق |
69 |