فن تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری صدی ہجری کے نصف سے ہوا۔جس طرح حدیث وفقہ پر کام کیا گیا اسی طرح قرآن مجید کے درست تلفظ و قراءات کی طرف توجہ کی گئی علمائے اسلام نے ہر زمانہ میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ اس علم کی دعوت و تبلیغ کو جاری رکها ، متقدمین علماء کے نزدیک علم تجوید پر الگ تصانیف کا طریقہ نہیں تها بلکہ تجوید علم الصرف کا ایک نہایت ضروری باب تها ، متاخرین علماء نے اس علم میں مستقل اور تفصیلی کتابیں لکھیں ہیں ، محمد بن مکی کی کتاب اَلرِّعایَة اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے ، جو کہ چوتهی صدی ہجری میں لکهی گئی۔ علم قراءات بھی ایک الگ فن ہے ائمہ قراءت اور علماء امت نے اس فن بھی پر ہر دور میں مبسوط و مختصر کتب کی تصنیف کی ۔ ائمۂ حدیث و فقہ کی طرح تجوید و قراءات کے ائمہ کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور تجوید و قراءات کے موضوع پر ماہرین تجوید و قراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’فن تجوید و قراءت تاریخ ہند کے آ ئینہ میں‘‘ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ القراءت ،گجرات میں منعقدہ سیمنیار میں پیش کیے گئے دو مقالات بعنوان ہندوستانی قراء اور علم قراءت،تجوید و قراءت کے اسباب زوال اور نشاۃ ثانیہ اور خطبہ استقبالیہ کا مجموعہ ہے۔(م۔ا)
عرض ناشر |
2 |
زوال تجوید و قراءت کے اہم اسباب |
10 |
زوال حکومت |
10 |
ارباب کمال کے قدوم میمنت لزوم سے محرومی |
11 |
فن کی حقیقت آشکارانہ کی گئی |
12 |
مکاتب و کالجس کا نصاف |
13 |
مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ کا نصاف |
13 |
فن سے اجنبیت کا آخری حال |
17 |
چند غور طلب باتیں |
18 |
ایک اور اشکال |
19 |
نشاۃ ثانیہ اور امید کی پہلی کرن |
20 |
قدرت کی کرشمہ سازی |
22 |
سرزمین گجرات پر شیخ موصلی کا قدوم میمون |
24 |
35 و 40 سال قبل جامعہ ڈابھیل کی فنی خدمات |
27 |
شمالی گجرات |
28 |
قیام انجمن |
34 |
طویل سفر |
38 |
مطلوبہ جوہر نایاب ہاتھ آ گیا |
39 |
بے نظیر علمی و درسی انہماک |
41 |
کتنے صبر آزما حالات سے گذرے |
44 |
فن کی عظمت اور انتقال امانت کا جذبہ مثالی |
44 |
دعائیہ مجلس کا انعقاد |
46 |