علوم نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے, مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کلام الٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وہ عظیم فن ہے جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔جوبھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی زبان کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک ہے ۔سلف وخلف کے تمام ائمہ کرام کااس بات پراجماع ہے کہ مرتبۂ اجتہاد تک پہنچنے کے لیے علم نحو کا حصول شرط لازم ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے'' علم نحو''کلیدی حیثیت رکھتاہے۔ اس کے بغیر علوم اسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرن اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب اور شروح لکھی کی جاچکی ہیں،اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب البشیر...