اسلامی کتب

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اسلامی منہاج میں علم اور پڑھنے پڑھانے کو ایک ارفع مقام حاصل ہے۔ نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی پہلی بھی اسی طرح اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم ہی بنیاد پر فرشتوں سے افضلیت عطا فرمائی۔ اس ضمن میں کتاب ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ سے اہل نظر کی پسندیدہ چیز اور موضوع رہی ہے۔ قدیم تہذیبوں میں بھی کتابوں کا تصور موجود رہا ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کی منازل طے کر رہی ویسے ویسے ان کتاب اور درس و تدریس سے متعلقہ آلات میں تبدیلی واقع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کے ہزاروں موضوعات پر لاکھوں کتب لکھی جا چکی ہیں۔ بطور مسلمان اسلامی معاشروں میں اسلامی کتب کو ہمیشہ سے پذیرائی حاصل رہی ہے۔ عہد نبویﷺ میں کہ جب ابھی عرب کے باشندوں تک کاغذ کی ایجاد کا خبر نہیں پہنچی تھی، اس وقت بھی لکھنے لکھانے کے اہتمام کیا جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل والی وحی کی دونوں صورتوں کو متعدد وسائل بروئے کار لاتے ہوئے محفوظ کیا جا رہا تھا۔ اس زمانہ میں تحریروں کو چونکہ پتھروں، ہڈیوں اور جانوروں وغیرہ کی کھالوں پر لکھنے کا رواج تھا اس لیے قرآن کریم کو بھی اسی انداز میں لکھاجا رہا تھا۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے وقت پورا قرآن کریم اسی انداز میں لکھا اور محفوظ کیا جا چکا تھا۔ البتہ یہ تمام آیات ایک جگہ پر جمع اور موجود نہیں تھیں۔ صحابہ کرام میں بہت سے حفاظ بھی موجود تھے جنھوں نے پورا قرآن یاد کر رکھا تھا ۔ عہد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جنگ یمامہ میں ستر کے قریب حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے۔ یہ صورتحال پیدا ہوئی تو حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ قرآن کریم کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے بصورت دیگر خدشہ ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق اس کام سے اس لیے پس و پیش کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے یہ کام نہیں کیا تھا۔ خیر کافی بحث و تمیص کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور اس طرح قرآن کریم کوایک ایک جگہ پر جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ احتیاط کرتے ہوئے پورا قرآن یکجا کر دیا گیا جو آج اپنی اصلی حالت میں ہمارے پاس موجود و محفوظ ہے۔ دنیا کی تمام کتب اور بالخصوص اسلامی کتب میں قرآن کریم کے بعد دوسرا مقام کتب حدیث کا آتا ہے۔ احادیث مبارکہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی ایک صورت ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ قرآن کریم وحی متلو جبکہ احادیث مبارکہ وحی غیر متلو ہیں۔ یعنی قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اور احادیث مبارکہ کی قرآن کے انداز میں تلاوت نہیں کی جاتی۔ حجیت کے اعتبار سے جو حیثیت قرآنی آیات کی ہے وہی احادیث مبارکہ کی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوصف قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور دیگر اسلامی کتب تک رسائی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔ صرف چند ایک کلک سے کسی بھی آیت کی تفسیر کسی بھی حدیث سے متعلقہ تمام تفیصلات تک پہنچنا انتہائی سہل ہو گیا ہے۔