انسان کو اپنی زندگی میں مختلف عارضے اور بیماریاں پیش آتی رہتی ہیں۔ شفا تو بہرحال اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں لیکن حصول شفا کے لیے اپنے وسائل کی حد تک دعا، دم اور دوا وغیرہ سے علاج کی خوب کوشش کرنی چاہئے۔ جسمانی امراض دو قسموں پر مشتمل ہیں جسمانی اور روحانی۔ شریعت اسلامیہ نےنہ صرف روحانی امراض کا علاج بتایا بلکہ جسمانی امراض سے متعلق بھی رہنمائی فرمائی۔ زیر نظر کتاب میں مولانا شفیق الرحمٰن فرخ دین اسلام کی انھی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ خوبصورت پیرائے میں جمع کر دیا ہے۔ اسلوب نگارش آسان اور شستہ ہے، نیز ہر بات پورے حوالے اور دلیل کے ساتھ پیش کی ہے۔ (عین۔ م)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت خداوندی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ ذکر و اذکار اور دعاؤں کا اہتمام کرے۔ اگر ایک مسلمان اپنے روز وشب مسنون انداز میں گزارنے کی کوشش کرے تو ہر لحظہ اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس کا سونا جاگنا اور کھانا پینا بھی عبادت شمار ہوتا ہے۔ ہم اپنے دن رات کے 24 گھنٹے کس طرح گزاریں کہ ہمارا اللہ ہم سے خوش ہوجائے۔ زیر مطالعہ کتابچہ میں اسی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔ کتابچے کا مدار کتاب اور سنت ہیں اور بعض جگہوں پر اقوال سلف کے حوالے بھی دئیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے شفا قرار دیا ہے، اس میں جہاں روحانی بیماریوں کا علاج موجود ہے وہیں یہ کتاب جسمانی بیماریوں کا مداوا بھی کرتی ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی عارضہ لاحق ہوتا ہے اور علاج پر کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود افاقہ نہیں ہوپاتا حالانکہ اس بیماری کا نہایت آسان اور سستا علاج قرآن کریم اور احادیث میں مذکور اذکار و ادعیہ میں موجود ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اذکار و ادعیہ کو یاد کیا جائے اور ان کا پڑھنا معمول بنایا جائے۔ زیر نظر مختصر سی کتاب میں بہت سی بیماریوں کا قرآنی دعاؤں کی روشنی میں علاج بتایا گیا ہے جس کو ایک عام فہم شخص بھی پڑھ کر عمل میں لا سکتا ہے۔ جن بیماریوں کا علاج رقم کیا گیا ہے ان میں نظر بد، مرگی، سر درد، زہریلے جانور کے ڈسنے، نکسیر اور جذام وغیرہ کےعلاج شامل ہیں۔ کتاب کا اردو ترجمہ شفیق الرحمٰن فرخ نے کیا ہے۔ (ع۔م)
اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقیت یہ ہے کہ ہر انسان نے موت کا سامنا کرنا ہے۔ جو دراصل ایک نہ ختم ہونے والی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے انسان اپنی زندگی میں موت کے مراحل کو ذہن میں رکھے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار رکھے۔ اپنے اعزا و اقربا کی وفات پر مسنون انداز میں تجہیز و تکفین کا اہتمام کرے اور اس نہج پر اپنے بچوں کی تربیت کرے۔ ہمارے ہاں عام طور پر کسی کی وفات پر ایسی ایسی بدعات و جاہلانہ رسومات دیکھنے میں آتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ یوٹیوب پر ایسی ویڈیوزموجود ہیں کہ ڈھول کی تھاپ اور بھنگڑوں کے جلو میں میت کو قبرستان پہنچایا جا رہا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں ’موت سے قبر تک‘ کے تمام معاملات کو کتاب و سنت کی خالص تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ جنازہ و دفن کے مراحل کو تصاویر کے ساتھ واضح کیا گیا ہےاور جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی شامل اشاعت ہیں۔ علاوہ بریں میت کے لیے ایصال ثواب کا مسنون طریقہ بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ (ع۔م)
شہد ایک لیس دار میٹھا سیال ہے جو کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے رس کی مدد سے بناتی ہیں۔ شہد انسان کے لئے اللہ تعالٰی کی عطا کردہ ایک بیش قیمت ایسی نعمت ہے جسے ہر آدمی محبت کی نظر سے دیکھتا ہے۔تمام غذائی نعمتوں میں شہد کو ایک ممتاز درجہ حاصل ہےاﷲ تعالیٰ نے شہد میں بھی اتنی افادیت رکھی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ شہد کمزور لوگوں کیلئے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے جس کا سردیوں میں مستقل استعمال انسان کو چار چاند لگا دیتا ہے۔طب نبوی میں شہد کوامتیازی مقام حاصل ہے ۔شہد کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شہد کا ذکر کیا ہے اسے لوگوں کےلیے شفا قرار دیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ پاکیزہ شہد پاکیزہ زندگی ‘‘ طویل عرصہ شہد کا کاروبار کرنے والے اور شہد کے متعلق مفید معلومات رکھنے والےملک بشیر احمد کی تصنیف ہے ۔مصنف نے اس کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے حصے میں شہد سے متعلق قرآن وحدیث اور تفسیری نکات کے علاوہ شہد کےفوائد ،استعمال کے طریقے، اقسام، خصوصیات او رملاوٹ وغیرہ سے بچنے کے متعلق معلومات درج کی ہیں...
علم وعمل کے اعتبار سے برصغیر کی سرزمین ہمیشہ سرسبز وشادات رہی ہے ۔ اس میں مختلف اوقات میں بے شماراصحاب علم اور ارباب فضل پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بے پناہ علمی خدمات سرانجام دیں اور عملی میدان میں بھی بے حد تگ وتاز کی ۔ تدریس وتصنیف ، تبلیغ واشاعت دین ، وعظ ونصیحت غرض ہر شعبۂ عمل ان کا سلسلہ جدوجہد جاری رہا۔انہی شخصیات کی فہرست میں تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنےوالے عظیم مجاہد علامہ یوسف کلکتوی کا نام گرامی بھی شامل ہے ۔ موصوف سن 1900ء میں گوداس پور کے ایک قصبہ بھٹویہ تحصیل دینا نگر میں پیدا ہوئے او راپنے عہد کے متعدد جلیل القدر علمائے کرام سےاستفادہ کیا ۔پھر ایک وقت آیا کہ خود مسندِ تدریس پر فائز ہوئے اور خطابت وتقریر میں بھی بڑا نام پایا۔موصوف پُر جوش خطیب تھے کلکتہ میں خطابت کے ساتھ ساتھ سیاہی وعطریات کا کاروباربھی کرتے تھے ۔خود کماکر اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے ۔انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں پورے بنگال میں سرگرم عمل رہے ۔قیام پاکستان کےبعد کراچی آگئے اور اسی شہر میں...