حدیث کو نقل کرنے والے راویوں کو پرکھنے کے فن کو "جرح و تعدیل" کہا جاتا ہے۔ اگر کسی راوی کو پرکھنے کے نتیجے میں اس کی مثبت صفات سامنے آئیں اور وہ شخص قابل اعتماد قرار پائے تو اسے "تعدیل" یعنی 'قابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔ اگر راوی کی منفی شہرت سامنے آئے اور اس پر الزامات موجود ہوں تو اسے "جرح" یعنی 'ناقابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کی احادیث ہم تک راویوں کی وساطت سے پہنچی ہیں۔ ان راویوں کے بارے میں علم ہی حدیث کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے حدیث کے ماہرین نے راویوں کے حالات اور ان سے روایات قبول کرنے کی شرائط بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ شرائط نہایت ہی گہری حکمت پر مبنی ہیں اور ان شرائط سے ان ماہرین حدیث کے گہرے غور و خوض اور ان کے طریقے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ شرائط کا تعلق راوی کی ذات سے ہے اور کچھ شرائط کا تعلق کسی راوی سے حدیث اور خبریں قبول کرنے سے ہے۔ دور قدیم سے لے کر آج تک کوئی ایسی قوم نہیں گزری جس نے اپنے افراد کے بارے میں اس درجے کی معلومات مہی...
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اہل بیت سے محبت رکھنا جزو ایمان ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور عبدالمطلب بن ہاشم کی ایمان قبول کرنے والی ساری اولاد اہل بیت میں شامل ہے۔ کسی بھی طرح کے قول وفعل سے ان کو ایذا دینا حرام ہے۔ بعض لوگ اہل بیت کےلیے لفظ ’’ علیہ السلام‘‘ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جبکہ سلف صالحین سے اہلبیت کےلیے علیہ السلام کا لفظ لکھنا، پڑھنا اور بولنا ثابت ہے۔ زیرنظر کتابچہ ’’اہلبیت کےلیے علیہ السلام اور سلف صالحین کا مؤقف‘‘ ابو امیمہ اویس صاحب کا مرتب شدہ ہے۔ مرتب موصوف نے اس کتابچہ میں صحاح ستہ سے ایسی 74 احادیث منتخب کر کے پیش کی ہیں کہ جن میں اہل بیت کےلیے علیہ السلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (م ۔ ا)
شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔ ملک شام کے متعدد فضائل احادیث نبویہ میں مذکور ہیں، قرآن کریم میں بھی ملک شام کی سرزمین کا بابرکت ہونا متعدد آیات میں مذکور ہے۔ یہ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اور اہل فرانس کی پالیسیوں نے اس سرزمین کو چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کرا دیا،لیکن قرآن و سنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ پورا خطہ مراد ہے جو عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل ہے۔ اسی مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرمﷺ کے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں مثلاً اسی مبارک سرزمین کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں...
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔‘‘اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہ...
وتر کےمعنیٰ طاق کے ہیں ۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سفر و حضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم ﷺ نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے ۔ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کا حکم متعدد مرتبہ دیا ہے ۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے ۔ رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے ، نبی اکرم ﷺ کا مستقل معمول بھی یہی تھا ۔ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کر سکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کر لیں ۔ آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ نماز وتر کی ادائیگی ثابت ہے ۔ کتب احادیث وفقہ میں نماز کے ضمن میں صلاۃ وتر کے احکام و مسائل موجود ہیں ۔ نماز کے موضوع پر الگ سے لکھی گئی کتب میں بھی نماز وتر کے احکام موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’...
علم اسماء الرجال راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اور تاریخ ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب و نسب، قوم و وطن، علم و فضل، دیانت و تقویٰ، ذکاوت و حفظ، قوت و ضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیر اس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے راویوں کے حالات اور ان کے متعلق جرح و تعدیل کے سلسلہ میں جو کتابیں لکھی گئیں انہیں کتب اسماءالرجال کہتے ہیں۔ ان کتابوں سے راویوں کے حالات, ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات, ان کے شیوخ اور تلامذہ, ان کے متعلق ائمہ کی جرح و تعدیل, ان کے عقائد وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ ان کتابوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کونسا راوی ثقہ تھا اور کونسا ضعیف۔ائمہ محدثین نے اس فن پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ز نظر کتاب ’’ ناقابل قبول راویوں کی کتاب‘‘ محترم جناب محمد سعید عمران صاحب کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تدوینِ حدیث کے دور کی پانچ مشہور کتابوں سے استفادہ کر کے ایسے 3161 راویوں کے صرف نام بمعہ حوالہ حروف تہجی کی ترتیب سے اس...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت شریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’سلف صالحین اورتقلید‘‘ غالبًا محدث العصر حافظ زبیر علی کے تقلید کے متعلق ایک تحقیقی مضمون کی کتابی صورت ہے ۔ حافظ صاحب مرحو م نے اس رسالہ میں کہا ہے کہ علماء کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ حسبِ استطاعت کتاب وسنت اور اجماع پر قولاً وفعلاً عمل کرنا ضرروی ہے اوراگر ادلۂ ثلاثہ میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر اجتہاد جائز ہے۔ ال...