تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ زیر تبصرہ کتاب "اسلام اور جدید سیاسی وعمرانی افکار"علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے استادمحترم ایس ایم شاہد صاحب کی تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے اسلام اور جدید سیاسی وعمرانی کا موازنہ کرتے ہوئے اسلام کی روشن تعلیمات کو بیان کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس کاوش...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام اور سائنس " علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے استاد محترم ایس...
معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ انکا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو۔ جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اس کا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ ، مغربی معاشرہ یا اسلامی معاشرہ۔ اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کے اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے اور فلاح و بہبود کے معاشرے کا قرآنی تصور، ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابلے معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھو دیتی ہیں۔ معاشرے کے قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی۔ اور کسی بھی انسانی معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو مساوی انسان نہ سمجھا جائے، اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں جو ایک طاقتور کے پاس ہوں، خواہ یہ کمزوری ط...