اسلام دینِ فطر ت اور مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اس ضابطہ حیات میں ہر دو مرد وزن کی حفاظت وتکریم کے لیے ایسے قواعد مقرر کئے گئے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے میں نہ کوئی دقت پیش آتی ہے نہ فطرت سلیم انہیں قبول کرنے میں گرانی محسوس کرتی ہے ۔اسلام باوقار زندگی گزارنے کادرس دیتا ہے۔ جس کے تحفظ کے لیے تعزیری قوانین نافذ کئے گئے ہیں تاکہ عزت نفس مجروح کرنے والوں کا محاسبہ ہوتا رہے ۔عورت کے لیے پردے کاشرعی حکم اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے۔اسلام نے عورت کو پردےکا حکم دے کر عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا ۔پردہ کاشرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور مردکی شہوانی کمزوریوں کا کافی وشافی علاج ہے ۔اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض عین ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ا یک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراح...
دور حاضر میں مادی تمدّن کی چمک دمک اور ظاہری کرشمہ آرائیوں کی سراب نے دنیا کی نگاہوں کو اس درجہ فریب خوردہ بنا دیا ہے کہ حقیقت کی روشنی نہ صرف نگاہوں سے اوجھل ہو گئی بلکہ دنیا اُس سے بالکل مستغنی اور بے فکر ہی ہو بیٹھی ہے۔قومیں اور حکومتیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے آج اپنی بقاء ترقی کا راز صرف ان ہی وسائل تمدن میں پوشیدہ سمجھنے لگی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں بتلایا جائے کہ اس مادی تمدن کی حقیقت کیا ہے؟اس سلسلہ میں زیرِ تبصرہ کتاب کے مؤلف نے دنیا کی چار بڑی قوموں (مشرکین‘ یہود‘ نصارٰی اور مسلمان) کی قومی ذہنیتوں اور اُن کے طبعی اسباب وعلل پر حکمۃ شرعیہ کے ماتحت تبصرہ کرکے حاصل یہ نکالا کہ اس وقت دو ہی قومیں ہیں جن کے ہاتھ ہمہ گیر ترقیات کا میدان لگنا چاہیے تھا وہ دو قومیں مسلمان اور مسیحیت ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے دونوں قوموں کا موازنہ کیا ہے کہ امت اسلامیہ اور امت نصرانیہ میں باہمی نسبت اور کاروباری توازن کیا ہے اور حقیقی ترقی کس نے کی ہے؟اور نصرانی تمدن اور اسلامی تمدن کا تقابل کیا گیا ہے کہ آج...
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز حضرت آدم سےکیاگیا تھا اس کااختتام حضرت محمد ﷺ کی ذات ِستودہ صفات پر کردیا گیا ہے۔اور نبوت کے ختم ہوجانے کےبعددعوت وتبلیغ کاسلسلہ جاری وساری ہے ۔ دعوت وتبلیع کی ذمہ داری ہر امتی پرعموماً اور عالم دین پر خصوصا عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی کامل ترین اور مؤثر ترین شکل یہ ہےکہ تمام مسلمان اپنا ایک خلیفہ منتخب کر کے خود کو نظامِ خلافت میں منسلک کرلیں۔اور پھر خلیفۃ المسلمین خاتم النبین ﷺ کی نیابت میں دنیا بھر کی غیر مسلم حکومتوں کو خط وکتابت او رجہاد وقتال کےذریعے اللہ کے دین کی دعوت دیں۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت...