دور حاضر میں مادی تمدّن کی چمک دمک اور ظاہری کرشمہ آرائیوں کی سراب نے دنیا کی نگاہوں کو اس درجہ فریب خوردہ بنا دیا ہے کہ حقیقت کی روشنی نہ صرف نگاہوں سے اوجھل ہو گئی بلکہ دنیا اُس سے بالکل مستغنی اور بے فکر ہی ہو بیٹھی ہے۔قومیں اور حکومتیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے آج اپنی بقاء ترقی کا راز صرف ان ہی وسائل تمدن میں پوشیدہ سمجھنے لگی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں بتلایا جائے کہ اس مادی تمدن کی حقیقت کیا ہے؟اس سلسلہ میں زیرِ تبصرہ کتاب کے مؤلف نے دنیا کی چار بڑی قوموں (مشرکین‘ یہود‘ نصارٰی اور مسلمان) کی قومی ذہنیتوں اور اُن کے طبعی اسباب وعلل پر حکمۃ شرعیہ کے ماتحت تبصرہ کرکے حاصل یہ نکالا کہ اس وقت دو ہی قومیں ہیں جن کے ہاتھ ہمہ گیر ترقیات کا میدان لگنا چاہیے تھا وہ دو قومیں مسلمان اور مسیحیت ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے دونوں قوموں کا موازنہ کیا ہے کہ امت اسلامیہ اور امت نصرانیہ میں باہمی نسبت اور کاروباری توازن کیا ہے اور حقیقی ترقی کس نے کی ہے؟اور نصرانی تمدن اور اسلامی تمدن کا تقابل کیا گیا ہے کہ آج کی تمدنی فکریات اور سائنٹفک ایجادات کو اسلام کے اخلاقی نظام سے کیا نسبت ہے ؟ یعنی اسلامی تعلیمات اور مسیحی تعلیمات کا تقابل کیا گیا ہے۔ مصنف نے عمدہ اسلوب کی ساتھ ساتھ زبان کی سلاست کا بھی خیال رکھا ہے اور قارئین کے لیے ایک مشکل بھی ہے کہ مصنف نے حوالہ جات کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا حتی کہ قرآنی آیات کے حوالے میں بھی صَرف نظر سے کام لیا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ مولانا قاری محمد طیب کی شاہکار تصنیف ہے اور آپ خط وکتابت کے میدان میں ایک مایۂ ناز شخصیت کا مقام رکھتے تھے اور جس بھی موضوع پر آپ نے قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کر دیا۔ دعا ہے کہاللہ تعالیٰ مصنف کے درجات بلند فرمائے اور اُن کی خدماتِ دین کو قبول فرمائے اور ان کے لیے ذریعہ نجات بنا ئے اور عوام کے لیے نفع عام فرمائے (آمین)( ح۔م۔ا )
فہرست کمپوز ہو رہی ہے۔