نظام قدرت کی یہ عجیب نیرنگی اور حکمت ومصلحت ہےکہ یہاں ہر طرف اور ہر شے کے ساتھ اس کی ضد اور مقابل بھی پوری طرح سے کارفرما اور سر گرم نظر آتا ہے۔حق وباطل،خیر وشر،نوروظلمت،اور شب وروز کی طرح متضاد اشیاء کے بے شمار سلسلے کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔اور تضادات کا یہ سلسلہ مذاہب ،ادیان اور افکار واقدار تک پھیلا ہوا ہے،اور ان میں بھی حق وباطل کا معرکہ برپا ہے۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو خارجی حملوں سے کہیں زیادہ نقصان اس کے داخلی فتنوں ،تحریف وتاویل کے نظریوں ،بدعت وتشیع ،شعوبیت وعجمیت اور منافقانہ تحریکوں سے پہنچا ہے،جو اس سدا بہار وثمر بار درخت کو گھن کی طرح کھوکھلا کرتی رہی ہیں ،جن میں سر فہرست باطنیت اور اسماعیلیت کی خطرناک اور فتنہ پرور تحریک ہے،اور جن کا سر چشمہ رفض وتشیع ہے۔جس نے ایک طویل عرصے سے اسلام کے بالمقابل اور متوازی ایک مستقل دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "خمینی اور شیعیت کیا ہے؟علم وتحقیق کی روشنی میں" محترم مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے خم...
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی اس انتہاکو پہنچ چکی ہے کہ جھوٹ سچ سے اور کھوٹا کھرے سے بالکل پیوست نظر آتا ہے۔جس طرح علم ظاہر کے حامل علمائے حق کی صفوں میں علمائے سوءداخل ہو چکے ہیں ، اسی طرح علم باطن کے حامل مشائخ حق پرست کے بھیس میں نفس پرست لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کی روحانی اور باطنی تنزلی کی انتہا یہاں تک ہو چکی کہ ایک طبقے نے بیعت طریقت کو لازم قرار دے کر فرائض کے ترک کرنے اور شریعت اور طریقت کو الگ الگ ثابت کرنے کا بہانہ بنا لیا ۔ ضلو ا فا ضلوا (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)۔ دوسرے طبقے نے بیعت طریقت کو گمراہی سمجھ کر اس کی مخالف کا بیڑا اٹھا لیا۔ان حالات میں اہل حق کیلئے افراط و تفریط کے شکار ان دونوں طبقوں سے چومکھی لڑائی لڑنے کے سوا چارہ نہیں۔ تاکہ احکام شریعت کو نکھار کر پیش کیا جائے اور حق و باطل کی حد فاصل کو واضح کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب’’تصوف کیا ہے‘‘جو کہ مولانا محمد منظور نعمانی،مولانا محمد اویس ندوی،اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے مقالات سے تحریر کی گی ہے جس میں مذکورہ...
ایک زمانہ تھا کہ عام مسلمان قرآن سے بالکل بے نیاز ہوا کرتے تھے۔ گھروں میں قرآن بس تبرک کے طور پر رکھا جاتا تھا۔اس کے ترجمے کا رواج نہ تھا۔ چنانچہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں کے لیے اسے سمجھنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ عوام الناس میں سے زیادہ نیک لوگ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے بلا سمجھے اسے پڑھا کرتے تھے، جبکہ دیگر لوگ بالعموم مردوں کو بخشوانے اور دلہنوں کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کے لیے اسے استعمال کیا کرتے تھے۔ علماء و محدثین کی کوششوں سے ہمارے ہاں قرآن کو ایک مختلف حیثیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ علما میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر کرنے کا چلن عام ہوا۔ ان کے کیے ہوئے ترجمے گھروں میں رکھے اور پڑھے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ قرآن فہمی کی تحریکیں اٹھیں۔ معاشرہ میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رویہ عام ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟‘‘مولانا محمد منظور نعمانی کی ہے۔ جس میں قرآن کریم کی سادہ اور بلیغ دعوت کوقرآن کریم ہی کے الفاظ میں مختصر تشریحات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر انسانوں کو بھی مد نظر ر...