نام: محمد۔ کنیت: ابو عبداللہ۔ لقب: ناصر الحدیث۔ نسبت: شافعی؛ اور یہ ان کے جدّاعلیٰ شافع کی جانب نسبت ہے۔ سلسلہ نسب یہ ہے: محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف القریشی الہاشمی المطلبی۔ ساتویں پشت پر جا کر سلسلۂ نسب رسول اللہﷺسے مل جاتا ہے۔ نسبی اعتبار سے اس سے زیادہ شرافت کیا ہو سکتی ہے۔ علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی والدہ کو ہاشمیہ کہاہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ کی والدہ قبیلہ ازد سے تھیں جو یمن کا ایک ممتاز و مشہور قبیلہ ہے۔
ولادت
آپ کی ولادت کے متعلق چار اقوال ہیں۔ یہ کہ آپ کی ولادت غزہ میں ہوئی یا عسقلان میں یا مدینہ میں یا یمن میں۔ صحیح یہ ہے کہ آپ بمقام غزہ رجب ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا انتقال آپ کے پیدا ہونے سے کچھ دن قبل ہو چکا تھا۔
چونکہ باپ کا سایہ تو پیدا ہونے سے قبل ہی اٹھ چکا تھا، اس لیے آپ کی والدہ نے مدتِ رضاعت ختم کر کے دو سال کے بعد اپنے قبیلہ ازدنواح یمن کا سفر کیا اور آپ نے اپنے ماموں کے پاس کامل آٹھ سال گزارے۔ وہیں آپ نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور دس سال کی عمر میں موطا امام مالک کو حفظ کیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے خواب میں نبی کریمﷺ کو دیکھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! تو کس خاندان سے ہے؟ میں نے عرض کیا: حضور کے خاندان سے۔ فرمایا: میرے قریب آؤ۔ جب میں آپ کے قریب آگیا آپ نے اپنا لعابِ دہن میری زبان پر، ہونٹوں پر اور منھ پر ڈال دیا، پھر فرمایا: جاؤ خدا تم پر برکت نازل فرمائے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی عمر میں پھر رسول اللہﷺکو خانہ کعبہ میں نماز پڑھاتے دیکھا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو تعلیم دیتے رہے، پھر میں بھی آپ کے قریب آبیٹھا اور آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی کچھ سکھائیے۔ آپﷺ نے اپنی آستین سے میزان (ترازو) نکال کر دی اور فرمایا: تیرے لیے میرا یہ عطیہ ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ایک معبرسے اس کی تعبیر دریافت کی تو اس نے کہا: تم دنیا میں نبیﷺ کی سنتِ مطہرہ کی نشر و اشاعت میں امام بنو گے۔
ہر اچھے کام کرنے اور برائی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ضمیر کا احساس بیدار ہو اور دل میں خیروشر کی تمیز کے لیے خلش ہو، یہ تقویٰ ہے، پھر اس کام کو خدائے ذوالجلال والاکرام کی رضا مندی کے سوا ہر غرض و غایت سے پاک رکھا جائے، یہ اخلاص ہے، اس کے کرنے میں صرف خدا کی نصرت وحمایت پر بھی بھروسہ رہے تو یہ توکل ہے، اس کام میں رکاوٹیں اور دقتیں پیش آئیں یا نتیجے میں تاخیر ہو تو دِل میں استقامت رکھنی چاہیے، خدا سے آس نہ ٹوٹنے پائے اور اس راہ میں اپنا برا چاہنے والوں کا بھی برا نہ چاہا جائے تو یہ صبر ہے، اگر کامیابی کی نعمت سے سرفرازی ہو تو اس پر مغرور ہونے کی بجائے اس کو خدا کا فضل وکرم سمجھتے ہوئے اور جسم و جان اور قلب و لسان سے اس کا اقرار کیا جائے اور اس قسم کے کاموں کے کرنے میں اور بھی زیادہ انہماک ہو تو یہ شکر ہے۔ اس تمہید کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ میں یہ تمام صفاتِ ایمانی بدرجہ اتم موجود تھیں۔
آپ خود ہی فرماتے ہیں کہ میں نے بیس سال سے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ میں نے طمع و لالچ کو کبھی پاس نہیں آنے دیا۔ اس کی بدولت مجھے ہمیشہ آرام پہنچا اور اسی وجہ سے ہمیشہ میری عزت‘ ذلت میں بدلنے سے محفوظ رہی۔ فرمایا کرتے تھے کہ حرص وطمع وہ برائی ہے جس سے نفس کی دنائت پوری طرح ظاہر ہوتی ہے، خصوصاً ایسی حرص جس میں بخل کی آمیزش بھی ہو، اسی کو عرب شُحْکہتے ہیں، قرآن کریم میں اس کی برائی متعدد جگہ آئی ہے۔ فرماتے تھے کہ خانگی زندگی کی نا گواری زیادہ تر اسی وجہ سے ہوتی ہے، گھر کا مالک زیادہ دینا نہیں چاہتا اور گھر کے لوگ زیادہ مانگتے ہیں۔ شوہروں کو مال سے محبت ہوتی ہے اور بیویاں لالچ سے زیادہ مانگتی ہیں۔ اس سے خانگی معاملات میں کشمکش ہو جاتی ہے اور گھر روحانی تکالیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمایا کرتے تھے: قرآن کی اس آیت کو اچھی طرح سمجھو، جس میں مسلمانوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھتے ہیں۔
﴿وَيُؤثِرونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ ۚ وَمَن يوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ...٩﴾...سورة الحشر
’’اور اپنے اوپر (اوروں کو) مقدم رکھتے ہیں؛ اگرچہ خود ان کو ضرورت ہو اور جو اپنے جی کی لالچ سے بچایا گیا وہی کامیاب ہیں۔‘‘
خلیفہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ بے حد اصرار کیا کہ آپ جس شہر کو پسند کریں میں آپ کو وہاں کا قاضی مقرر کر دوں، لیکن آپؒ نے جواب دیا مجھے اس عہدے سے معاف ہی رکھیے۔
آپؒ فرماتے ہیں: سخاوت کے معنی یہ ہیں کہ اپنے کسی حق یا کسی شے کو خوشی کے ساتھ بغیرکسی اکراہ کے دوسرے کے حوالہ کر دیا جائے اور اس کی چند صورتیں یہ ہیں: اپنا حق کسی کو معاف کر دینا، اپنی ضرورت کو روک کر کسی اور کی ضرورت پوری کرنا، دوسرے کے لئے اپنے دماغ کو خرچ کرنا، دوسرے کی اعانت کے لئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دینا اور دوسروں کو بچانے کے لئے خود کو پیش کر دینا۔ فرمایا کہ کسی شخص کو کبھی نکمی و ناکارہ چیز نہ دیا کرو؛ اس کے دینے سے نفس کی بلندی زائل ہو کر دنائت پیدا ہونے لگتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ۖ وَلا تَيَمَّمُوا الخَبيثَ مِنهُ تُنفِقونَ وَلَستُم بِـٔاخِذيهِ إِلّا أَن تُغمِضوا فيهِ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّـهَ غَنِىٌّ حَميدٌ...٢٦٧﴾...سورة البقرة
’’ اے ایمان والو! اس میں سے جو تم نے کمایا ہے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے؛ اچھی چیزیں خرچ کرو اور اس میں سے بری چیز کے دینے کا ارادہ نہ کرو، حالانکہ تم خود تو اسے لینا گوارہ نہیں کرتے، ہاں اس صورت میں (اپنے لیے) قبول کر لو گے کہ اگر آنکھیں بند کر لو۔‘‘
ابتداء میں آپ تنگدستی سے گزر بسر کرتے تھے، مگر تعلیم حاصل کر لینے کے بعد خدائے کریم نے ہر قسم کی نعمتوں سے آپ کو سرفراز فرما دیا تھا۔ اکثر خلیفۂ وقت، امراء، وزراء اور اہلِ ثروت آپ کو ہدایا پیش کرتے رہتے تھے اور ہر شخص اسے قبول کرنے میں اصرار کرتاتھا۔ ایک بارخلیفہ ہارون رشید نے آپ کو پچاس ہزاردرہم بھیجے، ان میں سے آپ نے چالیس ہزار غرباء، یتامٰی، بیوگان اور نادار علماء پر صرف کر دیے۔ ابو حسان زیادی نے ایک مرتبہ چھے ہزار دینار، جعفر بن یحییٰ برمکی نے ایک ہزار دینار اورپھر ہارون رشید نے متعدد بار کئی ہزار دینار بھیجے۔ مگر آپ کا معمول یہ تھا کہ بسا اوقات صرف ایک چوتھائی اپنے لیے رکھ کر باقی رقم رات کی تاریکی میں غریب علماء و فقہاء اورنادارطلباء ، بیوگان ویتامٰی میں تقسیم فرما دیتے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے کہ الٰہی! مجھے حرصِ دنیا سے ہمیشہ محفوظ رکھنا۔ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر نہ کوئی کریم دیکھا اور نہ سخی۔ ایک بار عید کی رات تھی، میں ان کے ساتھ مسجد سے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں ایک مسئلے پر گفتگو جاری ہو گئی، ہم بات چیت کرتے کرتے گھر پہنچے تو دیکھا کہ آپ کے مکان پر ایک غلام کھڑا تھا، اس نے سلام کہا اور بولا کہ میرے آقا نے یہ روپیوں کی تھیلی بطورِ ہدیہ پیش کی ہے اورسلام عرض کیا ہے۔ آپؒ نے فرمایا: انہیں میرا سلام کہہ دینا اور میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کر دینا۔ عین اسی وقت ایک شخص آیا اور کہنے لگا: حضرت! میرے ہاں ابھی بچہ پیدا ہوا ہے اور گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ آپ نے وہ تھیلی فوراًاس کو دے دی اور اس نادار کی خدمت کرنے کی وجہ سے خوش ہوتے ہوئے گھر میں چلے گئے۔ ایک مرتبہ عید کے دن گھر میں کھانے پینے کا مناسب سامان نہ تھا۔ آپ کی بیوی نے کہا: آپ تو اپنی قوم کے ساتھ بڑی صلہ رحمی کرتے رہتے ہیں، آج عید ہے اور گھر میں سامان تک نہیں ہے، اس لیے کسی سے کچھ قرض ہی پکڑ لیجیے۔ چنانچہ آپ نے ایک شخص سے ستر دینار قرض لے لیا۔ قرض لے کر آہی رہے تھے کہ فقراء اور مساکین نے گھیر لیا۔ پچاس دینار ان کو تقسیم کر دیے اور بیس دینار لے کر گھر میں گئے۔ ابھی وہ دینار بیوی کو دینے بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور شخص نے صدا لگائی، آپ فوراً آئے، پوچھا: خیر تو ہے؟ اس نے رو کر اپنا حال سنایا۔ آپ نے وہ بیس دینار سامنے رکھ دیے اور فرمایا کہ بھائی اس میں سے جس قدر چاہو؛ لے لو۔ اس نے سب اٹھا لیے اور بولا: ابھی تو مجھے اور ضرورت ہے۔ آپ بیوی کے پاس گئے اور سارا قصہ سنایا۔ بیوی نے کہا: آپ یونہی کرتے رہیے گا۔ رات ہوئی، خاموشی سے سب سو گئے۔ صبح کو جعفر بن یحییٰ برمکی وزیر ہارون رشید کا ایک قاصد آیا اور آپ کو بلا کر ساتھ لے گیا۔ جعفر نے آپ کی بے حد تعظیم کی اور آپ سے کہا: آج رات کو خواب میں ہاتفِ غیبی سے مجھے صدا آئی اور آپ کا واقعہ بتایاگیا ہے۔ پھر جعفر نے ایک ہزار دینار نذر کیے اور اصرار کیا کہ اس کو قبول کر لیجئے۔ چنانچہ آپ نے وہ دینار قبول فرما لئے۔
آپ فرماتے تھے کہ تواضع کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تا کہ کوئی شخص اپنی قوت ودولت کا بے جا استعمال نہ کر پائے، جس سے غریبوں اور غیر مستطیع کا دل دُکھے۔ چونکہ نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی کہ خاکساری اختیار کرو؛ تا کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے اور کسی کو کسی کے مقابلہ میں فخر کرنے کی جرأت نہ پیدا ہو۔ تواضع کا مقصد معاشرتی زندگی میں خوش گوار لطافت پیدا کرنا ہے۔
آپ نے اپنے دوستوں اور شاگردوں کی خاطرداری کے لئے ایک کنیز کو مقرر کر رکھا تھا۔ وہ حلوا بنانے میں با کمال تھی۔ آپ اس سے حلوہ بنوا کر اکثروبیشتر ملنے جلنے والوں کو کھلاتے اور انتہائی محبت آمیز لہجہ سے گفتگو فرماتے۔ احباب کو کھلا کر بہت خوش ہوتے تھے۔ اگر کوئی معمولی احسان بھی کرتا تو علاوہ شکر گذاری کے اس کے ساتھ اس سے زیادہ احسان فرما دیتے۔ اگر کسی شخص سے معمولی سی خدمت بھی لیتے تو اس کو دوگنا اجرت عنایت فرماتے تھے۔ باکمال اشخاص کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ایک بار کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص تیر اندازی کی مشق کر رہا ہے، آپ کے سامنے اس کا تیر صحیح نشانے پر لگا تو آپ نے اپنی جیب سے اس کو تین دینار نذر کیے اور ا ظہارِ افسوس کیا کہ کاش اور دینار ہوتے تو میں تمہیں اور بھی دیتا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جو آپ کے شاگردِ خاص ہیں؛ فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے ایک مسئلہ پوچھا۔ آپ نے جواب دے کر اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی بیان فرمائی۔ اس شخص نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی اس حدیث پر عمل کرتے ہیں؟ آپ کو بے حد غصہ آیا اور فرمانے لگے: کیا تم نے مجھے بت خانے سے نکلتے دیکھا ہے یا میرے گلے میں زنار دیکھا ہے؟ جو صحیح حدیث سے ثابت ہے وہی میرامذہب ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اصول یہ تھا کہ اگر ان کو اپنے فتوے کے خلاف کوئی صحیح حدیث پہنچ جاتی تو فوراً اعلانیہ فرما دیتے کہ میں اپنے فتوے سے رجوع کرتا ہوں۔ امام مزنی وربیع بن سلیمان اور دوسرے شاگردوں سے ہمیشہ یہ فرماتے رہے کہ میں نے جتنی تصانیف لکھی ہیں ان میں بحد امکان احتیاط وجزم سے دلائل کو لکھ دیا ہے، تاہم میں انسان ہوں، ہو سکتا ہے کہ ان میں غلطیاں ہوئی ہوں، غلطی سے منزّہ تو فقط خدا کا کلام ہے۔ اس لئے کوئی بھی مسئلہ میری کتابوں میں اگر خلافِ کتاب و سنت ہو اور تم اس کو دیکھو تو خوب سمجھ لینا کہ میں نے اس سے رجوع کر لیاہے۔ یاد رکھو کہ اگر صحیح حدیث مجھ تک پہنچے اورپھر میں اس پر عمل نہ کروں تو میری عقل میں فتور آ چکا ہوگا۔ آپ کو کبھی اپنی رائے یابات پراصرار نہیں رہتاتھا۔ اگر کسی مسئلہ میں غلطی ثابت ہو جاتی تو فوراً رجوع فرما لیتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری نظر احادیثِ صحیحہ پر مجھ سے زیادہ ہے، اس لئے میرے قول کے خلاف جب کسی صحیح حدیث کو دیکھو تو مجھے مطلع کر دیا کرو، تاکہ اس حدیث پر عمل کروں اور اپنی رائے کو نمایاں طور پر ترک کروں۔ آپ بے انتہا حق پسند تھے۔ آپ سے اکثر مناظرات ومباحثات ہوتے رہتے تھے، آپ فریقِ ثانی کو بڑی نرمی وخندہ پیشانی سے جواب دیتے تھے۔ آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے کبھی کسی شخص سے اپنی بڑائی یا اظہارِ فضیلت کی بناء پر مباحثہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق کا مقصد سامنے رہا۔ جھوٹ بولنے سے سخت نفرت تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے مدت العمرمیں نہ کبھی جھوٹی بات کہی اور نہ ہی کسی معاملے میں جھوٹی یا سچی قسم اٹھائی۔
کسی نے آپ کے سامنے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے: سنو! لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کی اولاد ہیں۔ کسی نے امام سفیان بن عیینہ وامام مالک رحمہمااللہ کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا: اگر یہ دونوں نہ ہوتے تو حجاز سے علمِ حدیث ناپید ہوجاتا۔ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی قول نقل کرتے تو فرماتے: ہذا قول أستاذنا الامام مالک ’’یہ ہمارے استاذ امام مالک کا قول ہے۔‘‘ کسی نے پوچھا: کیا آپ نے امام مالکؒ جیسا آدمی دیکھا ہے؟ فرمایا: ہماری کیا حقیقت ہے جو علم اور عمل میں ہم سے زیادہ ہیں وہ یہی کہتے رہے ہیں کہ امام مالک جیسا آدمی ہم نے نہیں دیکھا۔ صحابہ کرام e کے متعلق فرماتے تھے: الصحابۃ فوقنا فی کل علم واجتہاد وورع وعقل ’’صحابہ علم واجتہاد اور تقوٰی وعقل میں ہم پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘ ایک مرتبہ کسی شخص نے مسئلہ دریافت کیا کہ اگر کسی شخص نے کعبہ تک پیدل جانے کی نذر مانی اور پھر اس نذر کو پورا نہ کر سکا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا: قسم کا کفارہ ادا کرے اور ہم سے بہتر شخص عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔
صبح کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب تک فقہ کا درس دیتے، پھر حدیث کا درس شروع ہوتا، اس کے بعد مجلسِ وعظ منعقد ہوتی اور پھر علمی مذاکرات ہوتے رہتے۔ ظہر کے بعد ادب وعروض اور نحوولغت کا سبق ہوتا، اس کے بعد عصر تک گھر پر آرام فرماتے، عصر سے لے کر مغرب تک ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے اور پھر رات کے تین حصے کرتے: ایک تہائی رات میں نیند فرماتے، دوسرے تہائی میں کتابتِ حدیث و فقہ اور تیسرے تہائی حصے میں قرآن کی تلاوت اورنوافل کی ادائیگی فرماتے رہتے، تاآنکہ صبح ہوجاتی۔ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکیم فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ آپس میں زاہدوں اور متقیوں کا تذکرہ کر رہے تھے، ان میں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا خاص طور پر تذکرہ ہوا۔ اسی دوران عمرو بن نباتہ بھی آگئے۔ انھوں نے کہا: اے احباب کرام! میری نظر میں تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سب سے بڑے زاہد، عابد اور متقی ہیں۔ قرآن مجید کی نشرواشاعت میں مصروف، مکروہات سے کنارہ کش اور حکام وامراء سے بے نیاز۔ سنو! ایک مرتبہ میں اور حارث صالح مزنی کا غلام امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ صفا پر جا رہے تھے کہ اتفاقاً حارث نے یہ آیت پڑھ دی:
﴿هـٰذا يَومُ الفَصلِ ۖ جَمَعنـٰكُم وَالأَوَّلينَ ٣٨...المرسلات﴾
’’یہ ہے فیصلے کا دِن؛ کہ جب ہم تم کو اور (تم سے) پہلے لوگوں کو اکٹھا کریں گے۔‘‘
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کو سن کر کانپ اٹھے اور زاروقطار رونے لگے۔ ان پر خدا کا خوف ہمیشہ غالب ہی رہتا تھا۔ ربیع بن سلیمانؒ فرماتے ہیں کہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حج کو گیا، میں نے دیکھا کہ آپ ہر نشیب و فراز پر روتے تھے اور یہ شعر نہایت پُرسوز لہجے میں پڑھتے تھے:
آل النبی ذریعتی، وہم الیہ وسیلتی
أرجو بأن أعطی غداً، بیدی الیمین صحیفتی
’’اہلِ بیتِ رسول میرا ذریعہ ہیں اور بارگاہِ خداوندی میں میراوسیلہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے داہنے ہاتھ میں مجھے اعمال نامہ دیا جائے گا۔‘‘
تلاوتِ کلام اللہ کا بڑا شوق تھا۔ یوں تو معمولاً قرآن مجید روزانہ پڑھتے رہتے تھے۔ حسین بن علی کرابیسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں آپ کے پاس تین مہینے تک رہا، میں نے آپؒ کو ہر رات کا تہائی حصہ نوافل اور قرآن خوانی میں صرف فرماتے ہوئے دیکھا۔ قرآن مجید ایسی خوش الحانی اور عرب کے تمام لہجوں میں پڑھتے تھے کہ جب آپ امام ہوتے تولوگوں کے رونے کی آوازیں اس قدر بلند ہو جاتیں کہ آپ کو رکوع کرنا پرتا، اور جب کبھی آپ کسی مجلس میں قرآن پڑھتے تو لوگوں کی ہچکی بندھ جاتی اور بہت سے آدمی تو بے خود ہو کر گر جاتے۔ ابو عبید قاسم بن سلامؒ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی فصاحت اورطلاقتِ لسانی سے بڑے خوش ہوتے تھے۔ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے قرأت کرنے والابڑا جری اورقابل ہوتا تھا اور آپ نے مجھے حکم دے رکھا تھا کہ تم مجھے قرآن سنایا کرو، میں کچھ دیر پڑھ کر خاموش ہو جاتا تو آپؒ فرماتے: اور پڑھو۔ میرا اندازِقرأت انہیں بے حد پسند تھا۔ ذہانت وفہم: قاضی یحییٰ بن اکثمؒ فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر کوئی عقل مند نہیں دیکھا۔ امام مزنیؒ کا قول ہے کہ اگر نصف اہلِ دنیا کی عقل کا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی عقل کے ساتھ وزن کیا جائے تو امام صاحب کی عقل وزنی نکلے گی۔ محمد بن الفضل البرازی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد فضل اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حج کو گئے اور دونوں ایک ہی جگہ ٹھہرے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ علی الصباح خاموشی سے حرم محترم چلے گئے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں شرکت مقصود ہو گی، اس لیے اتنے سویرے چلے گئے۔ چنانچہ میں بھی اٹھا اور آپ کے پیچھے چل دیا، میں نے آپؒ کو حرم میں منعقد علمی مجلسوں اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں تلاش کیا، لیکن آپ نہ ملے، تلاشِ بسیار کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ ایک قریشی نوجوان کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے آپؒ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ نے سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس چھوڑ کر یہاں کیوں نشست اختیار کی؟ حالانکہ وہ حضرت امام زہری ودیگر اکابر تابعین j کے ممتاز شاگردِ رشید ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا: چپ رہو، اگر حدیث عالی سند کے ساتھ نہ ملے گی تونہ سہی، لیکن حدیث صحیح بسندِ نازل تو ملے گی (یعنی ایک واسطہ اور بڑھ جائے گا)۔ لیکن اگر اس عقلمند کی باتیں میں نے حاصل نہ کیں تو پھر قیامت تک ایسا انسان نہ مل سکے گا، کتاب اللہ کا سمجھنے والا اس جوان قریشی سے بڑھ کر میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے پوچھا: ان کا اسمِ گرامی کیا ہے؟ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ محمد بن ادریس شافعی ہیں۔ رأس المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے تمام مشائخ کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے علم وذکاوت اور فہم وفراست کی تعریف میں رطب اللسان ہی پایا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے علم حاصل کرنے محمد بن ادریس شافعی قریشی سے زیادہ ذہین اور سمجھدار کوئی نہیں آیا۔ ایک بار امام احمد بن حنبل، امام اسحق بن راہویہ اور امام یحیٰی بن معین j مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور تینوں کا یہ ارادہ ہوا کہ محدثِ مکہ امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں چلیں۔ جب یہ تینوں حرمِ محترم میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک نوجوان مسند پر جلوہ افروز ہے اور اس کے آس پاس ایک ہجوم ہے، وہ نوجوان بڑی جرأت سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اے اہلِ شام وعراق! مجھ سے رسول اللہﷺکی احادیث کے متعلق جو چاہو دریافت کرو، میں مطمئن کر سکتا ہوں۔ امام اسحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ میں نے لوگوں سے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟ بڑا ہی بے باک وجری ہے۔ لوگوں نے بتلایا کہ یہ محمد بن ادریس شافعی ہیں۔ امام اسحق ؒنے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: چلو ذرا اس شخص سے اس حدیث کا مطلب دریافت کریں مکنوالطیور فی أوکارھم امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس حدیث کے معنی توواضح ہیں، یعنی رات کے وقت پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو۔ لیکن خیر میں تمہارے کہنے سے پوچھے لیتا ہوں۔ چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ اس حدیث کا مقصد کیا ہے؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً جواب دیا کہ جاہلیت میں یہ قاعدہ تھا کہ اگر کسی کو رات کے وقت سفر کرنا پڑ جاتا تو وہ پتھر مار کر گھونسلوں سے پرندوں کو اڑاتا، پھر اگر وہ پرندداہنی طرف اڑاتو یہ شگون لیا جاتا کہ سفر بخیروسلامتی ہو گا لیکن اگر بائیں طرف اڑا تو وہ شگونِ بد سمجھا جاتا تھا۔ پھر جب نبیﷺ کی بعثت ہوئی اور آپ نے ان کی یہ نازیبا حرکت ملاحظہ کی تو فرمایا: پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں ہی آرام کرنے دیا کرو اور تم اللہ پر بھروسہ رکھا کرو۔ امام اسحقؒ نے فوراً ہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: اگر ہم عراق سے حجاز تک کا سفر صرف اس حدیث کی توضیح کے لیے ہی کرتے تو بھی ہمارا سفر مبارک وکامیاب ہی تھا۔ تینوں ائمہ نے آپ کی جلالتِ شان وفہمِ حدیث کا اعتراف کیا۔ ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا: مجھ سے جو چاہو پوچھ لو، میں قرآن ہی سے استدلال پیش کروں گا۔ ایک شخص نے پوچھا: بھلا یہ تو بتائیے کہ بحالتِ احرام کوئی شخص کسی بھڑ کو مار ڈالے تو قرآن میں اس کا کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے فوراً جواب دیا:
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا... ٧﴾... سورۃ الحشر
’’رسول (ﷺ) تمہیں جس بات کا حکم دیں اس کی تعمیل کرو اور جس سے وہ منع کردیں اس سے رُک جاؤ۔‘‘
پھر ایک حدیث سنائی کہ رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے بعد تم شیخین یعنی سیدنا ابوبکروعمرdکی پیروی کرتے رہنا۔ پھر دوسری روایت بیان کی کہ سیدنا عمر ؓنے بحالت احرام بھڑ کو مار دینے کی اجازت دی ہے۔ حفص الفرد نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ لوگوں کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ رسول اللہﷺ کا کوئی فعل بے فائدہ نہیں ہے، لیکن پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ نبیﷺ نے ایک بار کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس فعل نبوی سے کیا فائدہ معلوم ہوتا ہے؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اس کا فائدہ یہ ہے کہ ملک عرب میں یہ تجربہ مشہور ہے کہ اگر کسی کی کمر میں درد ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے وہ درد جاتا رہتا ہے۔ چونکہ نبیﷺ کی کمر میں درد تھا اس لئے آپ نے عرب کے تجربہ کے لحاظ سے ایسا کیا تھا، لیکن یہ فعل آپﷺ سے عادتاً منقول نہیں ہے۔ آپ بڑے الجھے ہوئے معاملات اور مسائل آ نِ واحد میں سلجھا دیا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ صحیح الدماغ، سریع الفہم اور مسائل کا صحیح اور مدلل جواب دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔
علمائے مدینہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تو آپؒ کو جوانی کی عمر میں ہی فتویٰ دینے کی اجازت دے چکے تھے۔ مدینہ سے واپسی پر مکہ میں آپ کے استاذ مسلم بن خالد زنجی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت دیدی، لیکن آپ نے بغرضِ احتیاط حضرت امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا۔ امام سفیانؒ نے کئی سال تک آپ کو حدیث وفقہ اور تفسیر کی تعلیم دی۔ ایک بار انھوں نے آپ سے دریافت کیا: شافعی! یہ بتاؤ کہ امام زہریؒ کی روایت سے جو یہ حدیث مروی ہے کہ نبیﷺ ام المومنین سیدہ صفیہ ؓ کے ساتھ مسجد سے چلے، راستے میں آپ کو دو آدمی ملے، آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے ساتھ یہ میری بیوی صفیہ ہے۔ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ حضور! بھلا ہم آپ کے بارے میں ایسا کیونکر سوچ سکتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے رگ وپے میں خون کی طرح دوڑتاہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ نبیﷺ کے پیش نظر یہ تھا کہ قبل اس کے کہ ان لوگوں کے دل میں یہ خدشہ گزرے کہ ایک اولوالعزم نبی کے ساتھ یہ عورت کیسے؟! اور پھر وسوسۂ شیطانی ان کے دل میں اتہام یا سوئِ ظن پیدا کردیتا۔ آپ نے اس تصور سے قبل ہی اس کو واضح کر دیاتاکہ ان کا ذہن بدگمانی میں مبتلاہی نہ ہو۔ دوسر اس میں آپﷺ نے امت کو تعلیم دی ہے کہ میں باوجود اس کے کہ نبی ہوں، مگر میرے متعلق بھی لوگ غلط رائے قائم کر سکتے تھے، اس لیے تم بھی ہمیشہ اس کو پیش نظر رکھو کہ تہمت یا افتراء وبہتان کے اسباب سے ہمیشہ خود کو محفوظ رکھو، کیونکہ شیطان انسان کے رگ وپے میں دوڑتا پھرتا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب آپؒ سے یہ توضیحات سنیں تو فرمایا: جزاک اللہ! کیا نفیس بات کہی ہے اور ایسے انداز میں کہ جی خوش ہو گیا۔ اب تم فتویٰ دیا کرو۔ حلیہ مبارک: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آپ میانہ قد اور موزوں اندام تھے۔ آپ کے ہاتھ لمبے تھے، آپ کے تلامذہ کہتے ہیں کہ گھٹنوں تک ہاتھ پہنچتے تھے۔کشادہ پیشانی، چہرہ زیادہ پر گوشت نہ تھا، تبسم ہمیشہ نمایاں رہتا، بھوئیں بھری ہوئی مگر علیحدہ علیحدہ، دانت چھوٹے مگر کشادہ، ڈاڑھی متوسط، آخر عمر میں مہندی کا خضاب لگاتے تھے، ناک لمبی اور اس پر ہلکے ہلکے چیچک کے نشان اور چہرہ پر وقار نمایاں تھا۔ ازواج واولاد: ان کی ایک اہلیہ اور ایک جاریہ تھی۔ آپ کی اہلیہ سیدنا عثمان ؓکے خاندان سے تھیں۔ ان کا نام ونسب یہ ہے: حمدہ بنت نافع بن عیینہ بن عمر بن عثمان بن عفان۔ آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ دو کا بچپن میں انتقال ہو گیا، صرف ابو عثمان محمد حیات رہے۔ بیٹیوںں کا نام رسول اللہﷺ کی صاحبزادیوں کی طرف نسبت سے فاطمہ و زینب رکھا۔ وفات: آپ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۹ھ میں مصر تشریف لے گئے اور اپنی زندگی کے آخری پانچ برس وہاں گزار کر علم وحکمت کا یہ آفتاب ہر سُو اپنی کرنیں بکھیرتا ہوا اور متلاشیانِ علم کو اپنی ضیاء پاشیوں سے بہرہ مند کرتا ہوا ۲۰۴ھ میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
اللھم اجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ
اللہ تعالیٰ نے حدیث او رحاملین حدیث کو بڑی عزت فضیلت اور شرف سے نوازا ہے او رحدیث رسول ﷺ کی خدمت او رحفاظت کےلیے اپنے انہی بندوں کا انتخاب فرمایا جو اس کے چنیدہ وبرگزیدہ تھے ان تمام عظیم المرتبت شخصیات میں بلند تر نام امام شافعی کا ہے حضرت امام کی حدیث وفقہ پر خدمات اہل علم سے مخفی نہیں۔زیر نظر کتاب ''مسند امام شافعی '' اپنی افضلیت وفوقیت کی بناء پر جداگانہ مقام رکھتی ہے کیونکہ اس میں امام شافعی کی روایت کردہ احادیث کو جمع کیاگیا ہے ان احادیث کا انتخاب ہی اس کی سب سےاہم خاصیت ہے ایسی احادیث کو منتخب کیا گیا ہے جن میں مختصر مگر جامعیت کے ساتھ جملہ احکام شریعت کو سمودیاگیا ہے ۔اس کتاب کے ترجمے کی سعادت محتر م حافظ فیض اللہ ناصر﷾ (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور) نے حاصل کی ہےموصوف اس کتاب کےعلاوہ بھی کئی کتب کے مترجم ومؤلف ہیں اللہ فاضل مترجم کی جہود کوقبول فرمائے اور ان کے زور قلم اور علم وعمل میں اضافہ فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟ قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟ قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟ رسول اللہ ﷺ سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟ اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔ تمام مسالک (احناف،شوافع...
اللہ تعالیٰ نے حدیث او رحاملین حدیث کو بڑی عزت فضیلت اور شرف سے نوازا ہے او رحدیث رسول ﷺ کی خدمت او رحفاظت کےلیے اپنے انہی بندوں کا انتخاب فرمایا جو اس کے چنیدہ وبرگزیدہ تھے ان عظیم المرتبت شخصیات میں بلند تر نام امام شافعی کا ہے حضرت امام کی حدیث وفقہ پر خدمات اہل علم سے مخفی نہیں۔ امام شافعی اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ اور اعلیٰ درجہ کے انشاپرداز تھے۔ آپ کی دو کتب کتاب الام اور الرسالہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔آپ کی تالیفات میں سے ایک کتاب مسند الشافعی بھی ہے ۔مسند امام شافعی اپنی افضلیت وفوقیت کی بناء پر جداگانہ مقام رکھتی ہے کیونکہ اس میں امام شافعی کی روایت کردہ احادیث کو جمع کیاگیا ہے ان احادیث کا انتخاب ہی اس کی سب سےاہم خاصیت ہے ایسی احادیث کو منتخب کیا گیا ہے جن میں مختصر مگر جامعیت کے ساتھ جملہ احکام شریعت کو سمودیاگیا ہے۔مسند شافعی کے پہلے نسخے میں احادیث کی ترتیب ایسی نہ تھی کہ جس سے موضوعاتی انداز میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ۔کیونکہ اس میں ایک موضوع کی احادیث کتاب کے مختلف مقامات پر بکھری پڑی تھیں۔ چن...
وہ علم جس میں احکام کے مصادر،ان کے دلائل،استدلال کے مراتب اور شرائط سے بحث کی جائے اور استنباط کے طریقوں کو وضع کر کے معین قواعد کا استخراج کیا جائے، جن قواعد کی پابندی کرتے ہوئے مجتہد تفصیلی دلائل سے احکام معلوم کرے اس علم کا نام اصول فقہ ہے۔ جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کے لیے اس زبان کے قواعد و اصول کو سمجھنا ضروری ہے اسی طرح فقہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اصول فقہ میں دسترس اور عبور حاصل کرنا ضروری ہے اس علم کی اہمیت کے پیش نظر ائمہ فقہاء و محدثین نے اس موضوع پر کئی کتب تصنیف کی ہیں امام شافعی رحمہ اللہ وہ پہلے عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور ’’الرسالہ‘‘کے نام سے ایک کتاب تحریر کی پھر اس کی روشنی میں دیگر اہل علم نے کتب مرتب کیں ۔ اصول فقہ کی تاریخ میں بیسویں صدی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس دور میں علم اصول فقہ نے ایک نئی اٹھان لی اور اس پر کئی جہتوں سے کام کا آغاز ہوا ۔اس میدان میں کام کرنے والے اہل علم میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر عبد الکریم زیدان کا بھی ہے۔ اصول فقہ پر ان کی مایۂ ناز کتاب ’’الوج...