اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف یا پیداکاراسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب’’معاشیات اسلام‘‘ عالمِ اسلام کے عظیم مفکر سید ابو الاعلی مودودی کی تصنیف ہے۔یہ کتاب فلسفۂ معیشت کی ایک راہ کشا کتاب ہے ۔ اس میں ان اولین امور سے بحث کی گئی ہے۔ جنہیں ماہرین معاشیات بالعموم چھوڑدیتے ہیں او رجن کے بارے میں غلط تصورات کےکارفرماہونے کی وجہ سے وہ آگےکی شاہراہوں پر ہرقدم پر ٹھوکریں کھاتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ کتاب دراصل مولانا مودودی کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ان کےجاری کردہ رسالہ ’’ترجمان القرآن ‘‘ کی اشاعت کے آغاز سے مختلف مواقع پراسلام کے معاشی اصول واحکام کی توضیح او رزندگی کے موجود مسائل پران کے انطباق کےبارے میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں۔ تو پر وفیسر خورشد صاحب نے مولاناکی زندگی میں ہی اسے مرتب کیا اورمولانا کی نظر ثانی سے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1969ء میں شائع ہوا ۔مرتب نے اس کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ۔حصہ اول میں فلسفۂ معیشت سے بحث کی گئی ہے او ردنیا کے مروجہ معاشی نظاموں پر تنقیدی نظر ڈالنے کے ساتھ معیشت کے میدان میں اسلام کے مخصوص نقطۂ نظر کی پوری وضاحت کی گئی ہے۔نیزان اصولوں کوبھی ضروری تشریح کےساتھ پیش کیاگیا ہےجو قرآن وسنت میں مرقوم ہیں ۔کتاب کے دوسرے حصے میں مرتب نے مولانا مودودی کی ان تحریروں کو پیش کیا ہےجن کا تعلق ایک حیثیت سے اسلام کے فلسفۂ معیشت کے انطباق سے ہے۔ ایم اے اسلامیات ومعاشیات کے طلبہ اور اسلامی معاشیات کا ذوق رکھنےوالے اہل فکر کے لیے اس کتاب کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔ مولانامودودی کی اس کتاب کےعلاوہ بھی معیشت کے موضوع پر چار کتابین موجود ہیں۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
دیباچہ |
12 |
پیش لفظ |
13 |
مقدمہ |
21 |
حصہ اول : اسلام کامعاشی تصور |
29 |
باب اول : انسان کی معاشی مسئلہ او راس کااسلامی حل |
31 |
جزوپرستی کافتنہ |
32 |
اصل معاشی مسئلہ |
36 |
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب |
39 |
نفس پر ستی اور تغیش |
40 |
سرمایہ پر ستی |
42 |
نظام محاربہ |
43 |
چند سری نظام |
46 |
اشتراکیت کا تجویز کردہ حل |
48 |
نیا طبقہ |
48 |
نظام جبر |
49 |
شخصیت کاقتل |
50 |
فاشزم کاحل |
51 |
اسلام کاحل |
51 |
بنیادی اصو ل |
52 |
حصول دولت |
52 |
حقوق ملکیت |
53 |
اصول صرف |
54 |
سرمایہ پرستی کااستیصال |
55 |
تقسیم دولت او ر کفالت عامہ |
55 |
سوچنے کی بات |
58 |
باب دوم :قرآن کی معاشی تعلیمات |
61 |
بنیادی حقائق |
61 |
جائز ناجائز کے حدود مقرر کرنا اللہ ہی کا حق ہے |
62 |
حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات |
63 |
معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل |
67 |
رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندی حدود |
70 |
کسب مال کے حرام وحلال کا امتیاز |
71 |
کسب مال کے حرام طریقے |
72 |
بخل اور اکتنا کی ممانعت |
76 |
زرپرستی اورحرص مال مذمت |
77 |
بے جاخرچ کی مذمت |
77 |
دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے |
78 |
مالی کفارے |
81 |
انفاق کے مقبول ہونے کی لازمی شرائط |
82 |
انفاق فی سیبل اللہ کی اصل حیثیت |
83 |
لازمی زکوۃ اوراس کی شرح |
86 |
اموال غنیمت کاخمس |
88 |
مصارف زکوۃ |
89 |
تقسیم میراث کا قانون |
90 |
وصیت کا قاعدہ |
91 |
نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت |
92 |
سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ |
93 |
ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کااصولی ضابطہ |
94 |
اسلامی نظام معیثت کی خصوصیات |
94 |
فہر ست ماخذ |
98 |
باب سوم: سرمایہ داری اور اسلام مافرق |
99 |
1۔اکتساب مال کے ذاریع میں جائز اور ناجائز کی تفریق |
99 |
2۔مال جمع کرنے کی ممانعت |
101 |
3۔ خرچ کرنے کا حکم |
102 |
4۔ زکوۃ |
107 |
5۔قانون وراثت |
110 |
غنائم جنگ اور اموال مفتوحہ کی تقسیم |
110 |
اقتصاد کاحکم |
112 |
باب چہارم: اسلامی نظام معیثت کے اصول او رمقاصد |
115 |
اسلام کے معاشی نظام کی نوعیت |
115 |
نظم معیثت کے مقاصد |
116 |
(الف) انسانی آزادی |
117 |
(ب) اخلاقی اورمادی ترقی میں ہم آہنگی |
118 |
(ج) تعاون وتوفق اور انصاف کا قیام |
119 |
بنیادی اصول |
119 |
شخصی ملکیت اور اس کے حدود |
120 |
منصفانہ تقسیم |
121 |
اجتماعی حقوق |
124 |
زکوۃ |
126 |
قانون وراثت |
129 |
مخت سرمایہ او رتنظیم کامقام |
130 |
زکوۃ اور معاشی بہود |
131 |
غیر سودی معیثت |
132 |
معاشی اور سیاسی معاشرتی نظام کاتعلق |
133 |
باب پنجم : معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول |
137 |
قرآن کی روشنی میں |
137 |
1۔اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں |
137 |
2۔ اخلاقی او ر معاشی ارتقاءکا اسلامی راستہ |
140 |
3۔تصور رزق اور نظریہ صرف |
142 |
4۔ اصول صرف |
144 |
5۔ اصول عتدال |
147 |
6۔معاشی دیانت وانصاف |
148 |
حصہ دوم: اسلام کا معاشی نظام ....چند پہلو |
151 |
باب ششم : ملکیت زمین کا مسئلہ |
153 |
1۔قرآن اور شخصی ملکیت |
154 |
2۔دور رسالت اورخلافت راشدہ کے نظائر |
156 |
قسم اول کاحکم |
157 |
قسم دوم کاحکم |
159 |
قسم سوم کاحکم |
160 |
قسم چہارم کاحکم |
164 |
حقوق ملکیت بربنائے آبادی کاری |
165 |
عطیہ زمین من جانب سرکار |
168 |
عطیہ زمین کے بارے میں شر عی صابطہ |
170 |
جاگیروں کے معاملے میں صحیح رویہ |
172 |
حقوق ملکیت کا احترام |
173 |
3۔اسلامی نظام او رانفرادی ملکیت |
175 |
4۔زرعی اراضی کی تحدید کامسئلہ |
178 |
5۔ بٹائی کا طریقہ او راسلا م کے اصول انصاف |
180 |
6۔ملکیت پر تصرف کے حدود |
181 |
باب ہفتم : مسئلہ سود |
183 |
1۔سود کے متعلق اسلامی احکام |
183 |
ربو اکامفہوم |
183 |
جاہلیت کا ربوا |
185 |
بیع او رربو میں اصولی فرق |
186 |
علت تحریم |
189 |
حرمت سود کی شدت |
190 |
2۔سود کی ضرورت ایک عقلی تجزبہ |
191 |
الف: خطرے اور ایثار کا عقلی تجزیہ |
191 |
’’ب‘‘موقع او رمہلت کا معاوضہ |
196 |
’’ج‘‘نفع آوری میں حصہ |
197 |
د: معاوضہ وقت |
200 |
شرح سودکی ’’معقولیت ‘‘ |
202 |
شرح سود کے وجوہ |
205 |
سود کامعاشی فائدہ او راس کی ضرورت |
209 |
کیا سود فی الواقع ضرور ی اور مفید ہے ؟ |
211 |
3۔سود کے مفسدات |
216 |
4۔سود کے بغیر معاشی تعمیر |
221 |
چند فہمیاں |
221 |
اصلاح کی راہ میں پہلا قدم |
224 |
انسداد سود کے نتائج |
226 |
غیر سودی مالیات میں فراہمی قرض کی صورتیں |
229 |
شخصی حاجات کے لیے |
230 |
کاروباراغراض کے لیے |
232 |
حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے |
234 |
بین الاقوامی ضرورت کے لیے |
235 |
نفع آور اغراض کے لیے سرمایہ کی بہم رسانی |
236 |
بینکنگ کی اسلامی صورت |
239 |
5۔غیر مسلم مما لک سے اقتصادی او رصنعتی قرضے |
243 |
باب ہشتم : زکوۃکی حقیقت اور اس کے احکام |
245 |
1۔زکوۃ کی حقیقت او راس کے احکام |
245 |
زکوۃ کے معنی |
245 |
سنت ابنیاء |
246 |
2۔ اجتماعی زندگی میں زکوۃ کا مقام |
248 |
3۔زکوۃ کاحکم |
255 |
4۔ مصارف زکوۃ |
258 |
5۔زکوۃ کے اصولی احکام |
267 |
6۔کیا زکوۃ کے نصاب او رشرح کو بدلااجاسکتاہے |
292 |
7۔کمپنیوں کے حصوں میں زکوۃ کا مسئلہ |
293 |
8۔شرکت ومضاربت کی صورت میں زکوۃ |
298 |
9۔کنوز کا نصاب زکوۃ |
300 |
10۔زکوۃ او رٹیکس کا فرق |
302 |
11۔ کیا زکوۃ کے علاوہ انکم ٹیکس عائد کرنا جائز ہے ؟ |
303 |
باب نہم : اسلا م اور عدل اجتماعی |
305 |
باطل حق بھیس میں |
305 |
فریب اول :سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت |
305 |
فریب دوم: اجتماعی عدل اور اشراکیت |
306 |
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا |
306 |
عدالت اجتماعیہ کی حقیقت |
307 |
عدل ہی اسلام کا مقصود ہے |
309 |
عدل اجتماعی |
309 |
انسانی شخصیت کا نشوونما |
310 |
انفرادی جواب دہی |
310 |
انفرادی آزادی |
311 |
اجتماعی ادارے اور ان کا اقتدار |
311 |
سرمایہ داری او راشراکیت کی خامیا ں |
313 |