اسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت عقیدہ ختم نبوت کو حاصل ہے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممتاز ہے اللہ تعالیٰ نے کسی گزشتہ دین کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہو ں اور نہ ہی سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے متعلق یہ فرمایاکہ یہ خدا کا آخر ی پیغام ہے اور نہ ہی یہ فرمایااس کو پیش کرنے والا آخری نبی ہے کہ جس کا ہر قول و فعل قیامت تک لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہو مگر محمد رسول اللہ1کا پیغام آخری پیغام ہے اور اپنے بعد کسی اور کے نہ آنے کا پیغام دیتاہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح دین محمدی کے متعلق (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (المائدہ :٣) ارشاد فرمایا اسی طرح رسول اللہ 1 کے متعلق بھی کہا کہ 'مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَا(الاحزاب :٤٠) حضور 1 نے بھی اس مضمون کو مختلف الفاظ سے بیان فرمایا جس کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت سے گمراہ فرقے اور فتنے پیدا ہوئے مگر ختم نبوت ،تحفظ ناموس رسالت اور جہاد من الکفار جیسے بنیادی مسائل پر سب متفق رہے اور امت محمدیہ میں سب سے پہلے جس مسئلہ پر اجماع ہوا وہ یہ تھاکہ آنحضرت 1 خا تم انبیاء کے بعد مدعی نبوت واجب القتل اور اس پر یقین کرنے والے مرتد اور دائر ہئ اسلام سے خارج ہیں۔ لیکن انیسویں صدی کے اخر میں جب سلطنت برطانیہ کا ستارہئ اقبال پورے آب وتاب کے ساتھ کرہئ ارض پرچمک رہاتھا تو انگریز نے جہاں دین اسلام کے خلاف اور بے شمار سازشیں کیں وہاں برصغیر پا ک وہند میں اپنے ناپاک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک نبی پیدا کرکے مندرجہ بالا متفق علیہ مسائل کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کیں مگر اس نے یہ کام اپنے کسی ہم وطن کی بجائے مسلمانان ہند میں سے ہی ایک ایسے ایمان فروش سے کرایا جس نے بے پناہ دولت کے عوض زندیق کا کردار اداکیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی تمام اسلامی ممالک او رخصوصاً ہندوستان میں اس کا شدید رد عمل ہو ا پورے عالم اسلام کے علماء کرام اور قضاء نے مرزا قادیان اور اس کے ہم خیالوں کے خلاف ارتداد اور تکفیر کے فیصلے اور فتاوی جاری کئے۔تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنی ذمہ داری کا بر وقت احساس کرتے اپنے تمام تر فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن اس فتنہ کا سد باب کیا جس کی مثال اسلامی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ مرزا قادیانی کے کافر ہونے کا سب سے پہلے فیصلہ بہاولپور کی عدالت نے جاری کیا۔یہ فیصلہ مسماۃ عائشہ بی بی کا ایک قادیانی شخص کے ساتھ نکاح کی صورت میں صادر ہوا۔عائشہ بی بی کے والد نے ایک شخص کے ساتھ اس کا نکاح کردیا لیکن بعد ازاں معلوم ہواکہ یہ شخص قادیانی ہے تو عائشہ کے والد نے اسے کے ساتھ اپنی بیٹی کورخصت کرنے سے انکار دیا۔ قادیانی شخص نے اپنی منکوحہ کو حاصل کرنے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائرکردیا ۔اس وقت نواب آف بہاولپور نے اس کیس کوسماعت کرنے والے جج صاحب نے اس مسئلہ کو اس وقت کے کبار علماء کے سامنے رکھے تواس وقت کی عظیم شخصیات فاتح قادیان مولانا علامہ ثناء اللہ امرتسری ، علامہ انور شاہ کشمیری ، ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے نامور علماء نے قادیانی عقائد کے حامل کوخارج اسلام اور غیر مسلم قرار دینے کے حق میں دلائل کے انبار لگا دئیے جس کو سامنے رکھتے اس مقدمہ کے جج محمد اکبر خان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا پہلا عظیم فیصلہ صادر فرمایا اور عائشہ بی بی کا اس قادیانی شخص کے ساتھ نکاح کو فسخ قرار دیا ۔ بعد ازاں اس خاتون کا نکاح محدث العصر مولاناسلطان محمود جلالپوری کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ''مقدمہ مرزائیہ بہاولپور'' ریاست بہاولپور میں اس وقت کی عظیم شخصیات فاتح قادیان مولانا علامہ ثناء اللہ امرتسری، علامہ انور شاہ کشمیری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے نامور علماء کے قادیانیوں کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر دیئے کے تفصیلی دلائل وبراہین اور دلائل کی روشنی میں جج صاحب کے صادر کے گئے تفصیل فیصلہ کے متن پر مشتمل ہے۔ اس ساری روداد کو اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور نے تین ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے۔
اس کتاب کی فہرست موجود نہیں ہے۔