ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حرّیت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہید اور ان کےجانباز رفقاء کی شہادت کےبعد ،بقیۃ السیف مجاہدین نے دعوت واصلاح وجہاد کاعلم سرنگوں نے نہ ہونے دیا بلکہ اس بے سروسامانی کی کیفیت میں اسے بلند سےبلند تر رکھنے کی کوشش کی ۔سید اسماعیل شہید اور ان کےجانباز رفقاء اوران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو زندہ رکھنے والے مجاہدین کی یہ داستان ہماری ملی غیرت اور اسلامی حمیت کی سب سے پر تاثیر داستان ہے۔ ان اللہ والوں نےاللہ کی خاطر آلام ومصائب کوبرداشت کیا ،آتش باریوں اور شمشیرزنیوں کی ہنگامہ آرائیوں میں جانیں دے دیں،خاندان ،گھر بار اور جائیدادوں کی قربانیاں دیں ۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور جزائر انڈیمان یعنی کالاپانی کی بھیانک اور خوفناک وحشت ناکیوں میں دن بسر کیے ۔لیکن جبیں عزیمیت پر کبھی شکن نہ آنے دی اور پائے استقامت میں کبھی لرزش پیدا نہ ہونے دی۔ زندگی کےہرآرام اور ہر عیش کو نوکِ حقارت سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ زیر نظرکتاب ’ ’تحریک سید احمد شہید المعروف شید احمد شہید‘‘ معروف مؤرخ وسوانح نگار مولانا غلام رسول مہر کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نےمجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہےیہ کتاب جماعت مجاہدین ، سرگزشتِ مجاہدین کے عنوان بھی شائع ہوئی ہے ۔مکتبہ الحق، ممبئی نےاسے دس سال قبل جدید عنوان’’ تحریک سید احمد شہید‘‘ کے ساتھ چار جلدوں میں شائع کیا ہے ۔ یہ چار ضخیم جلدیں تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں ۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
سطو اولین |
21 |
عرض ناشر |
24 |
پہلا باب |
|
ہزارہ کا محاز جہاد |
29 |
ہزارہ کی سرگزشت |
29 |
سکھوں کی آمد |
30 |
ہری سنگھ نلوہ |
31 |
سردار ان ہزارہ سید صاحب کی خدمت میں |
32 |
قبول دعوت کا شاندار دور |
34 |
پکھلی کے لیے لشکر |
34 |
دوسرا باب |
|
شاہ اسماعیل کی تنظیمی سرگرمیاں |
36 |
مجاہدین کا سفر |
36 |
مولانا اسماعیل امب میں |
37 |
عبور دریا اور پیش قدمی |
39 |
مجاہدین اگرور میں |
41 |
پریشانی در پریشانی |
42 |
سر بلند خاں سے ملاقات |
43 |
مولانا کی رائے |
44 |
خواتین ہزارہ کی حالت |
45 |
ملا محمد اسماعیل اخوندزادہ |
46 |
تیسرا باب |
|
ڈمگلہ اور شنکیاری کے معرکے |
47 |
ڈمگلہ پر یورش کی شہرت |
47 |
شبخون کا فیصلہ |
48 |
جنگ |
48 |
مراجعت |
49 |
جنگ شنکیاری |
50 |
مولانا کی عزیمت |
51 |
ہزارہ سے واپسی |
51 |
چوتھا باب |
|
غازیوں کے قافلے |
53 |
غازیوں کا انتظام |
53 |
ابتدائی قافلوں کی آمد |
54 |
مزید قافلے |
55 |
سدطریق کی سرگزشت |
56 |
سید صاحب کے انتظامات |
58 |
درہ پنجتار میں استقبال |
59 |
مولوی محبوب علی کا معاملہ |
60 |
فتنہ تفرقہ |
61 |
مولوی محمد حسن کی گفتگو |
62 |
مراجعت کے اثرات |
63 |
آخری دور کے قافلے |
64 |
ہنڈیاں |
5 |
پانچواں باب |
|
علامہ سمہ میں دور ے کی تجویز |
66 |
دورے کی کیفیت |
67 |
قیام خہر |
68 |
مولنا عبد الحی کی وفات |
69 |
تجہیز وتکفین |
71 |
مولوی عبد القیوم اور دوسرے اقربا |
72 |
متفرق واقعات |
73 |
سید محمد حبان |
75 |
تیسری شادی |
75 |
سیدہ کی تعلیم |
77 |
چھٹا باب |
|
جنگ اوتمان زئی |
79 |
درانی سرداروں کی کیفیت |
79 |
پشاور پر پیش قدمی کی تجویز |
80 |
خواتین وعلمائے سرحد کا فیصلہ |
81 |