اسلامی شریعت کے جملہ احکام وقوانین منزل من اللہ ہیں، چاہے وحی جلی قرآن مجید میں اس کا بیان ہو یا وحی خفی حدیث رسول ﷺ میں اس کا ذکر ہو، ہر ایک رب العالمین کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ چنانچہ عقائد، عبادات، اخلاق ومعاملات وغیرہ سے متعلق تمام مسائل میں اسلام نے ہمیں واضح راہنمائی دی ہے۔ اور نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ میں اس کے واضح عملی نقوش موجود ہیں۔ اس کے جملہ احکام وفرامین میں عبادات کا معاملہ بے حد اہم ہے،معمولی سی غلطی ہماری عبادات کے فاسد اور باطل ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جب تک قرآن وحدیث میں اس کا ثبوت نہ ہو اور نصوصو شرعیہ سے اس کی وضاحت نہ ملتی ہو اس وقت تک وہ قابل عمل نہیں ہوسکتے۔عبادات کے جملہ مراسم میں ایک اہم ترین عبادت ذکر ودعا بھی ہے جس کے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیلی احکامات موجو دہیں۔لیکن ذکر ودعا کے باب میں اہل تصوف اور گمراہ فرقوں اور جاہل عوام نے اتنی بدعتیں داخل کردیں کہ لوگوں نے اسے اصل دین اور صحیح عبادت تصورکرلیا۔ حتیٰ کہ اجتماعی ذکر ودعا کی محفلوں کا انعقاد کیا جانے لگا۔ جس بات کا ثبوت نہ تو قرآن وحدیث میں ملتا...
دین اسلام کے حقیقی وارثین وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے نزول قرآن کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا اور نبی کریم ﷺ کے روئے زیبا کو دیکھ کر اپنے ایمان ویقین کو تازہ کیا، انہیں نفوس قدسیہ کی محنتوں، کاوشوں اور عظیم الشان قربانیوں اور بے مثال جان نثاریوں کانتیجہ ہے کہ آج دین اسلام کامل اور مکمل شکل میں موجود ومحفوظ ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے اسوہ رسول ﷺ کو ہمہ دم مقدم رکھا۔ المختصر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حیات طیبہ کے روشن دریچوں سے یہ بات عیاں ہے کہ جس طرح اتباع میں ان کا جذبہ کامل تھا اسی طرح ابتداع اور نو ایجاد شدہ بدعتوں سے وہ بالکل دور اور متنفر رہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ طرز عمل رہا کہ جب بھی اہل ھوا اور اصحاب بدعت نے اپنی بدعات وخرافات سے دین میں مداخلت کرنے کی سازشیں کیں اور فتنوں کو جنم دیا تو فوراَ ہی زبان وبیان اور سیف وسنان سے ان کے خلاف معرکہ آراء ہوگئے ۔ دین میں بدعت کا ایجاد کرلیا جانا بہت ہی خطرناک اور گھناؤنا کھیل ہے۔علمائے سلف واضح طور بدعتوں کی سیہ کاریوں، تباہ کاریوں اور بربادیوں کے سلسلے میں ملت کو...