جرمنی کے معروف دانش ور کارل مارکس نے اپنے رفیق کار اینگلس کی معاونت سے دنیا کو ایک نئے نظام پر فکروعمل سے متعارف کرایا،جسے مارکسی فلسفہ یا مارکزم کے نام سےموسوم کیا جاتا ہے ۔اس نظام فکر کی اساس وبنیاد جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر استوار ہوئی ہے ۔جدلیاتی مادیت،فطرت اور سماج کو بالکل دوسری طرح سمجھنے کا ایک طریق کار ہے ۔جدلیت سے مراد یہ ہے کہ فطرت کے حوادث برابر متحرک ہوتے ہیں ۔وہ برابر بدلتے رہتے ہیں اور فطرت کی متصادم طاقتوں کے باہمی جدل وپیکار سے فطرت کا ارتقاء ہوتا ہے ۔جدلیت کا یہ قانون محض فطری حادثات کے ارتقاء میں کارفرما نہیں بلکہ انسانی معیشت اور تاریخ کے ارتقاء میں بھی موجود ہے ۔کارل مارکس کے افکار سے جہاں اور بہت سے لوگ متاثر ہوئے وہیں سوویت روس کا بانی لینن بھی متاثر ہوا۔اس نے افکار کو دل وجان سے اپنایا اور ان افکار کی بنیاد پر عملی طور پرایک مملکت کے نظام کو استوار کیا اور مارکس کے اصولوں کو عملاً ایک ریاستی نظام کی شکل میں برت کر دکھایا ۔زیر نظر کتاب ان تینوں مفکرین کے افکار کا احاطہ کرتی اور ساتھ ساتھ اس فکر سے متصادم نظریات کا محاکمہ بھی کرتی ہے ۔(ط۔ا)
جب ہم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے ۔ کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے ۔تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ چلاتے آئے ہیں ۔ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے اس طرح مذاہب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر اس وقت دنیا میں کئی مذاہب پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم،زرتشت،بدھ ازم ،سکھ ازم شامل ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔جیسا کہ دنیا کے تمام مذاہب کسی نہ کسی درجے میں قتل، چوری ،زنااور لڑائی جھگڑے کو سختی سے ممنوع قرار دیتے ہیں اور تمام قسم کی اچھائیوں کو اپنانے کی تل...