دین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو کہ نبیﷺ کی زندگی میں ہی مرحلۂ تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ اب اس میں کسی بھی قسم کی کمی وبیشی کرنا حرام ہے۔ خود نبیﷺ نے اپنی زندگی مبارک میں تبلیغ دین کا حق ادا کر دیا اور دین کو کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا اور آپ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ اپنی امت کے لیے ہر اس امر کی وضاحت فرما دی جسے اللہ نے مشروع کر دیا یا جس کو شریعت نے حرام وناجائز بتلایا اور اِس کی گواہی حجۃ الوداع کے تاریخی موقعہ پر صحابہؓ کے جم غفیر نے دی۔ اب نبیﷺ کے بعد دین میں کسی بھی ایسی بات کا اضافہ جو نبیﷺ نے نہیں کی یا بتلائی تو وہ بدعت وگمراہی کے سوا کچھ حیثیت نہ رکھے گی۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں ان غیر مشروع اعمال کو بیان کیا گیا ہے جو شب برات کے دن یا رات کو کیے جاتے ہیں اور وہ نہ نبیﷺ سے ثابت ہیں‘ نہ صحابہ سے اور نہ ہی تابعین عظام سے مثلا قبروں کی زیارت کا اہتمام‘ آتش بازی وچراغاں کرنا‘ شب برات کا روزہ اور قیام‘ مخصوص نماز کا اہتمام وغیرہ۔ اور اس میں شب برات کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی گفتگو موجود ہے۔ اس کتاب میں حوالہ...
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔موت کے وقت ایمان پر ثابت قدمی ہی ایک مومن بندے کی کامیابی ہے ۔ لیکن اس وقت موحد ومومن بندہ کے خلاف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے راہ راست سے ہٹانے اسلام سے برگشتہ اور عقیدہ توحید سے اس کے دامن کوخالی کرنے کےلیے حملہ آور ہوتاہے اور مختلف فریبانہ انداز میں دھوکے دیتاہے ۔ ایسےموقع پر صرف وہ انسان اسکے...
تاریخی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو اپنا شعاربنا کر عملی میدان میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو زیر نگین کرلیا۔مسلمان دانشوروں ، سکالروں اور سائنسدانوں نے علم و حکمت کے خزانوں کو صرف اپنی قوم تک محدود نہیں رکھابلکہ دنیا کی پسماندہ قوموں کو بھی استفادہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ چنانچہ اُس وقت کی پسماندہ قوموں نے جن میں یورپ قابل ذکر ہے مسلمان سکالروں سے سائنس اورفلسفہ کے علوم حاصل کئے۔یورپ کے سائنسدانوں نے اسلامی دانش گاہوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرلی اور یورپ کو نئے علوم سے روشناس کیا۔حیرت کی بات ہے کہ وہی مسلم ملت جس نے دنیا کو ترقی اور عروج کا سبق پڑھایا آج انحطاط کا شکار ہے۔ جس قوم نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے آج ایک ایک قطرے کے لئے دوسرے اقوام کی محتاج ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھری تھی آج ظالم اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کاجاننا امت مس...