علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطع...
آج ہر شخص سائنس اور سائنٹیفک کے الفاظ سے تقریبا تقریبا واقف ہے۔سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔اس کے باوجود اس سوال کا جواب بہت کم لوگ دے سکیں گے کہ سائنس کیا ہے؟عام لوگ ٹیلی ویژن،ریڈیو،ٹیلی فون،ہوائی جہاز،ایٹم بم اور اس قسم کی دوسری ایجادات کو سائنس سمجھتے ہیں،حالانکہ یہ سائنس نہیں ہیں،بلکہ سائنس کا حاصل اور پھل ہیں۔سائنس درحقیقت لاطینی لفظ (Scientia)سے مشتق ہے ،جس کے معنی ہیں غیر جانبداری سے حقائق کا ان کی اصل شکل میں باقاعدہ مطالعہ کرنا۔علت ومعلول اور ان سے اخذ شدہ نتائج کو ایک دوسرے سے منطبق کرنے کی کوشش کرنا یعنی فلاں حالات کے تحت فلاں نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل اس کے معنی خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ہر سائنسی کھوج ہر سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوع انسان کا حق بن چکی ہے، سائنس کی ہر کھوج، ہر نتیجہ ہر منزل، ہر تجربہ دنیا کے کیلئے ہے ۔ آج کی سائنس کسی ایک سرکار یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں ۔ یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ پی لے اور اگر آدمی علم اور عقل رکھتا ہو اور عمل کو...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ان کے حالات زندگی‘ کارناموں اور ان کی خدمات کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے‘ پہلے حصے میں محمد حمید اللہ صاحب کے حالات‘ کتب ‘ خصوصیات اور تاثرات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور دوسرے حصے میں ڈاکٹر حمید اللہ کی تحاریر کا انتخاب کیا گیا ہے اور تحاریر کو مضمون وار بیان کیا گیا ہے‘ سب سے پہلے تاریخ قرآن مجید‘ پھر تاریخ حدیث‘ تا...
قوموں اور ملکوں کی سیاسی تاریخ کی طرح تحریکوں اور جماعتوں کی دینی اور ثقافتی تاریخ بھی ہمیشہ بحث وتحقیق کی محتاج ہوتی ہے۔محققین کی زبان کھلوا کر نتائج اخذ کرنے‘ غلطیوں کی اصلاح کرنے اور محض دعوؤں کی تکذیب وتردید کے لیے پیہم کوششیں کرنی پڑتی ہیں‘ پھر مؤرخین بھی دقتِ نظر‘ رسوخِ بصیرت‘ قوتِ استنتاج اور علمی دیانت کا لحاظ رکھنے میں ایک سے نہیں ہوتے‘ بلکہ بسا اوقات کئی تاریخ دان غلط کو درست کے ساتھ ملا دیتے ہیں‘ واقعات سے اس چیز کی دلیل لیتے ہیں جس پر وہ دلالت ہی نہیں کرتے‘لیکن بعض محققین افراط وتفریط سے بچ کر درست بنیادوں پر تاریخ کی تدوین‘ غلطیوں کی اصلاح ‘ حق کو کار گاہِ شیشہ گری میں محفوظ رکھنے اور قابلِ ذکر چیز کو ذکر کرنے کے لیے اہم قدم اُٹھاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ متعدد اسلامی ملکوں میں احیائے اسلام‘ تجدید دین اور نفاذ اسلام کی کوششیں ہوئی اور ہوتی رہیں گی۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی موضوع کے حوالے سے ہے جس میں اسلام کی تجدید اور نفاذ کے حوالے سے تمام تحریکات کو کتاب کی زینت بنایا گیا...
ڈاکٹر حمید اللہ )9فروری 1908ء- 17 دسمبر 2002ء) ایک بلند پایا عالم دین ، مایہ ناز محقق، دانشور اور مصنف تھے جن کے قلم سے علوم قرآنیہ ، سیرت نبویہ اور فقہ اسلام پر 195 وقیع کتابیں اور 937 کے قریب مقالات نکلے ۔ڈاکٹر صاحب قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ ،حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے، ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ڈی فل اور سوربون یونیورسٹی (پیرس)سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں پروفیسررہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائینٹیفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں یورپ اور...
قرآن کریم اللہ کہ وہ مقدس کتاب ہے جس کی خدمت باعثِ خیر و برکت اور ذریعۂ بخشش و نجات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک علماء و مشائخ کے علاوہ مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اصحاب بصیرت نے حصول برکت کی خاطر اس کی کسی نہ کسی صورت خدمت کی کوشش کی ہے ۔ بعض اہل علم و قلم نے اس کے موضوعات و مضامین پر قلم اٹھایا ااور بعض نے اس کی انڈیکسنگ اور اشاریہ بندی کی جانب توجہ کی ۔ مختلف اہل علم نے اس حوالے سے كئی کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ روح القرآن‘‘ آیات قرآنی کا موضوع وار جامع اشاریہ ہے جسے سید قاسم محمود نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے اس میں مضامین کی تجمیع و تدوین پر زور دیا گیا ہے ۔ (م ۔ ا)