محمد عطاء اللہ صدیقی اس وقت ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ سال پھیلنے والی ڈینگی کی وبا کا شکار ہوئے اور پلک جھپنے میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ البتہ اپنی تحریروں کی صورت میں آج بھی وہ زندہ ہیں۔ موصوف اگرچہ صوبائی وزیر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے لیکن اسلامی شعائر کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ پوری زندگی قلمی جہاد کرتے ہوئے گزاری۔ ادارہ محدث کے ساتھ ان کا نہایت گہرا تعلق تھا۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ’محدث‘ میں وقتا فوقتاً لکھتے رہتے۔ محترم صدیقی صاحب کی تحریریں اردو ادب کا شاہکار نظر آتی ہیں۔ صدیقی صاحب چونکہ ثقافت کے وزیر تھے اس حوالے سے ان کی اسلامی تہذیب و ثقافت پر خاصی گہری نظر تھی۔ بسنت کو بھی چونکہ پاکستان میں کچھ لوگ تہذیب و ثقافت کا حصہ گردانتے ہیں اس لیے انھوں بسنتی خرافات کے خلاف جامع کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ زیر نظر کتاب اسی منصوبے کا تکملہ ہے۔ جس میں ناقابل تردید ادلہ کی روشنی میں بسنت کی حقیقت واشگاف کی گئی ہے۔ کتاب میں محترم صدیقی صاحب نے اپنے اور دیگر مضمون نگاروں کی بسنت سے متعلقہ لکھی جانے والی تحریرات کو جمع کیا ہے۔ کتاب کو چار حصو...
محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اسی طرح معاشرہ میں ہر فرد اس کامتلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہرمتلاشی کی سوچ اورمحبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام محبت اوراخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت،پیار اوراخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کوغلط رنگ دے کرمحبت کے لفظ کو بدنام کردیا گیا او ر معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پید ہو چکی ہیں اسکی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کا منایا جانا ہے ہر سال۱۴ فروری کو عالمی یومِ محبت کےطور پر ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طر ح پھیلتا چلا جارہا ہے ۔ اس د ن جوبھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔زیر نظر کتابچہ اسی موضوع پر عطاء اللہ صدیقی کی پ...
بسنت ایک ایسے طرزِ معاشرت کو پروان چڑھانے کاباعث بن رہا ہے جس میں کردار کی پاکیزگی کی بجائے لہوو لعب سے شغف، اوباشی اور بے حیائی کا عنصر بے حد نمایاں ہےہمارے ہاں دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ بسنت کو 'ثقافتی تہوار' کا نام دیتا ہےبسنت کے موقع پر جس طر ح کی 'ثقافت' کا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا ہے، کوئی بھی سلیم الطبع انسان اسے 'بہترین اذہان کی تخلیق' نہیں کہہ سکتا۔تاریخی طور پر بسنت ایک ہندووٴانہ تہوار ہی تھامگر جو رنگ رلیاں، ہلڑ بازی، ، لچرپن، بے ہودگی، ہوسناکی، نمودونمائش اور مادّہ پرستانہ صارفیت بسنت کے نام نہاد تہوار میں شامل کردی گئی ہے اس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔بسنت نائٹ کو بازار ی عورتیں جسم فروشی سے چاندی بناتی ہیں اور بہت سے لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے تاجروں کو اپنے مکانات کی چھتیں کرائے پر دے کر ایک ہی رات میں لاکھوں کی کمائی کرتے ہیں۔ ہوٹلوں کی چھتیں ہی نہیں، کمرے بھی بسنتی ذوق کے مطابق آراستہ کئے جاتے ہیں۔ شہروں میں جنسی بے راہ روی کتنی ہے، اور بازاری عورتوں کے لاوٴ لشکر کس قدر زیادہ ہیں، اس کا اندازہ اگر کوئی کرنا چاہے...