اسلام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا آخری پیغام ہے جو ہر اعتبار سے محفوظ ہے۔ اس کے احکام وفرامین کا مستقل سر چشمہ قرآن مجید اور سنت مطہرہ ہے۔ فقہ الاحکام کا ذخیرہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں حجاز کی حدود سے نکل کر افریقا اور ایشیاء کے متعدد اقالیم میں نو مسلم افراد اور اقوام کی ہمہ نوع رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا دکھائی دیتا ہے۔بسا اوقات تمدن کے ارتقاء‘ مقامی عرف کے تقاضے اور حالات کے اقتضا سے ایسے مسائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جن میں کوئی متعین نص موجود نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں فقیہ کتاب وسنت سے مستنیر حکمت‘ تدبر اور غور وفکر سے کام لیتے ہوئے ایسی قیاسی رائے ظاہر کرتا ہے جو نصوص کے مزاج سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔اور اس موضوع پر بہت سی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی اسی موضوع کے حوالے سے ہے جس میں فقہی اصطلاحات کو بیان کیا گیا ہے یہ کتاب عربی زبان میں تھی جس کا افادۂ عام کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے کہ ہر لفظ کا نیچے ترجمہ کیا ہو اور نہ ہی ایسا ترجمہ ہے کہ عبارت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو بلکہ خیر الامور اوسطھا کے تحت دونو...