ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں گناہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی کس عمل یا عقیدے کا نام ہے؟ کیا نیکی کا تصور محض نماز روزہ حج زکوٰۃ اور دیگر ظاہری عبادات تک محدود ہے یا اس کا دائرہ کار زندگی کے ہر معاملے تک پہنچتا ہے؟ کیا اس کی کوئی فہرست قرآن و سنت میں موجود ہے یا اسے عقل و فطرت سے بھی متعین کیا جاسکتا ہے؟کیا ہر نیکی کا وزن اس کی گنتی کے لحاظ سے ہے یا اس کی کمیت یعنی کوالٹی کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے؟ کیا نیکی صرف ظاہری عمل کا نام ہے باطنی نیت بھی نیکی میں شامل ہو سکتی ہے؟ قرآن وسنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ نیکی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی حدود قیود میں رہتے ہوئے خلوص نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد کسی بھی مخلوق کو جائز طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نیکی کی راہ ترجمہ خطوت إلى السعادة‘‘ مسجد نبوی کے امام وخطیب ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم کی عربی کتاب ’’خطوت إلى السعادة‘&...
یکی اور بھلائی کے راستے کئی قسم کے ہیں تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے مختلف اوقات میں اطاعت کے مختلف کام سر انجام دے اور اس میں نشاط برقرار رہے۔ بندہ اگر ایک عمل سے اکتا جائے تو دوسرا عمل کرلے۔ وہ اس طرح کہ جس وقت میں جو کام کرنا ہے وہی کیا جائے، یعنی نماز کے وقت نماز ادا کی جائے، جہاد کے وقت جہاد اور اگر مہمان آجائے تو اس وقت اس کی ضیافت کی جائے اور اس کی مہمانی کا حق ادا کیا جائے۔ پس ایسا شخص جو رسم رواج کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے وقت اور طریقے پر کرتا ہے تو اس کے لیے خوش خبری ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نیکی کی راہ‘‘ مسجد نبوی کے امام و خطییب ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم کی کتاب ’’خطوات إلى السعادة‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ، شیخ محترم تقوی وطہارت اور حسن صفات کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی کے امام وخطیب ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔آپ نے اس کتاب میں مختلف موضوعات سے متعلق کتاب و سنت اور اقوال سلف...
ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں ۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اورانبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے حکمرانوں ،علماء وفضلاء کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے ۔قرآن وحدیث ...