شیخ محمد بن عبدالوہاب ایک بلند پایہ شخصیت ہیں جنھوں نے تاریکیوں اور گمراہیوں میں حق کےچراغ روشن کیے اور لوگوں کے عقائد و اخلاق سنوارنے میں اپنا آپ وقف کر دیا۔ لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ قوم کے کچھ افراد نہ صرف ان پر سب و شتم کا بازار گرم رکھتے ہیں بلکہ تکفیر و تضلیل کے تیر برسانے میں بھی باک محسوس نہیں کرتے۔ پیش نظر کتاب ’امام محمد بن عبدالوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘ میں امام صاحب کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے خلاف افترا پردازیوں کے برپا کیے گئے طوفان بدتمیزی کی حقیقت طشت ازبام کی گئی ہے۔ کتاب کے مصنف علامہ مسعود عالم ندوی ہیں جو ایک بلند پایہ ادیب، ایک صاحب طرز انشا پرداز اور قوم کا درد رکھنے والے عظیم رہنما تھے۔ فاضل مصنف نے شیخ کے حالات زندگی معتبر حوالوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ایک باب میں ان تمام تصنیفات کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے۔ ایک باب میں شیخ کی دعوت، ان کا فقہی مسلک اور عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے اور آخری باب میں شیخ سے متعلق مشہور کی گئیں غلط بیانیاں اور افتراپردازیوں کی حقیقت واشگاف کی گئی ہے۔ (ع۔ م)
مولانا مسعود عالم ندوی ہندوستان کے ایک معروف اور مایہ ناز عالم دین ہیں۔آپ کا ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں شمار ہوتا ہے۔آپ نے اپنے وقت کے مشاہیر اہل علم سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے۔آپ متعدد کتب کے مصنف ومترجم ہیں۔زیر تبصرہ کتاب " مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر " بھی آپ کی انہی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔یہ کتاب ان کے دو مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھی حنفی کی کتاب"شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک" اور پروفیسر محمد سرور کی کتاب "مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے افکار وتعلیمات" پر تنقید اور استدراک کے طور پر لکھے تھے۔پہلا مقالہ مولانا کی زندگی میں شائع ہوا اور ان کی نظر سے گزر چکا تھا۔اس سلسلے میں انہوں نے ناقد کو مسلسل پانچ خط بھی لکھے جس میں انہوں نے اپنے افکار کی مزید توضیح کی تھی۔وہ پانچوں خطوط اس کتاب میں شامل ہیں۔ان خطوط کے علاوہ مولانا نے "برہان دہلی" میں ابھی اپنے افکار کی مزید تشریح اور 'استدراک'کے بعض شبہات کی تص...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "الترجمۃ العربیۃ" محترم مولانا مسعود عالم ندوی اور محترم مولانا محمد عاصم الحداد کی مشترکہ کوشش ہے۔ جسے ڈاکٹر محمد اقبال نکیانہ صاحب کے زیر اشراف عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق منفرد انداز میں طبع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے تین حصے ہیں جن میں سے دو حصے اس جلد...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہ...
خطوط لکھنے اورانہیں محفوظ رکھنے کاسلسلہ بہت قدیم ہے قرآن مجید میں حضرت سلیمان ؑ کا ملکہ سبا کو لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے کہ خط ملنے پر ملکہ سبا حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔خطوط نگاری کا اصل سلسلہ اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے خود نبیﷺ نے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ جب آپ نے مختلف بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو کو خطوط ارسال فرمائے پھر اس کے بعد خلفائے راشدین نے بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے یہ خطوط شائع ہوچکے ہیں اور اہل علم اپنی تحریروں او رتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں ۔برصغیرکے مشاہیر اصحاب علم میں سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، سید ندیر حسین محدث دہلوی، سیرسید ،مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ اقبال ، مولانا غلام رسول مہر اور دیگر بے شمار حضرات کے خطوط چھپے اور نہایت دلچسپی سے پڑ ھےجاتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’<...
مولانا عبیداللہ سندھی کی شخصیت برصغیر پاک و ہند میں کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ 28 مارچ 1876ء بمطابق 12 محرم الحرام 1289ھ کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چیلانوالی کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے ۔ 1884ء میں آپ نے اپنے ایک ہم جماعت سے مولانا عبیداللہ پائلی کی کتاب ’’ تحفۃ الہند“ لے کر پڑھی ۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ’’ تقویۃ الایمان“ پڑھی اور یوں اسلام سے رغبت پیدا ہو گئی ۔ 15 برس کی عمر میں 19 اگست 1887ء کو مشرف با اسلام ہوئے ۔ اردو مڈل تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی ۔ پھر قبول اسلام کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث ، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی ۔ 1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دارلارشاد قائم کیا ۔ 1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلباء کی تنظیم ’’ جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں...