مغربی تہذیب اور افکار و نظریات کی مشرق میں آمد کے بعد مسلمانوں کے اندر بالخصوص بنیادی طور پر تین طرح کے طبقات آئے ہیں ۔ پہلا وہ جو مغربی فکر و تہذیب کی مکمل تردید کرتا ہے اور دوسرا وہ جو مکمل تائید کرتا ہے اور تیسرا اور آخری گروہ ان لوگوں کا ہے جو پیوند کاری کرتا ہے ۔ مغرب کے ان گوناگو افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن کی دنیا میں ایک جمہوریت بھی ہے چناچہ اس کے بارے میں فطری طور پر مذکورہ بالا تین طرح کی ہی آراء سامنے آئی ہیں ۔ بعض لوگ جمہوریت کی بالکلیہ تردید ، بعض تائید اور بعض بین بین رائے اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں زیر نظر کتاب اول الذکر گروہ کی نمائندگی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ فاضل مصنف نے زیر بحث کتاب میں جہاں جمہوری نظام کے مفاسد کا ذکر کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ بالخصوص ان لوگوں کی آراء اور دلائل کو چھانٹے کی کوشش کی ہے جو مسلمانوں میں سے جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر غیرجانبدارنہ طور پر دیکھا جائے تو کتاب اپنے اندر کئی ایک حقائق کو بھی سموئے ہوئے ۔ اللہ ہماری صحیح رہنمائی فرمائے ۔ آمین۔(ع۔ح)
اللہ کے آخری رسولﷺ نے آسمانی ہدایات کے مطابق اس امت کی شکل میں ایک تحریک کھڑی کی تھی جس کا سب کچھ قیامت تک باقی رہنا یقینی امر ہے او اس تحریک کو زندہ و قائم رکھنے والے لوگوں کا بھی ہر دور میں ایک مستقل اور مسلسل انداز سے باقی رہنا آسمانی خبر کی رو سے قطعی اور حتمی ہے۔ اب وہ کون لوگ ہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق بن کر اس عظیم ترین شخصیت کی دعوت برحق کا فکری تسلسل رہے۔ ان کی وہ آئیڈیالوجی کیا ہے جو ان کے امتیاز کی اصل بنیاد رہی؟ اس تحریک کی تاسی کن لوگوں کے ہاتھوں ہوئی اور کن کے ہاتھوں اس کی ترجمانی و تجدید کا کام ہوتا رہا ہے؟ اس کے پیروکاروں کی درجہ بندی اور تقسیم مراتب کیونکر ہوتی رہی؟ اس سے انحرافات کو کس طرح ضبط میں لایا جاتا رہا اور ا س کے مخالفوں کے بارے میں کیا پالیسی اختیا کی جاتی رہی؟ پھر موجودہ دور میں اس کے دائرہ کی حدود کیا ہیں؟ اس کی ترجیحات کا محور کیا ہے؟ اس سے انحرافات کی شکل کیا ہے اور اس کو درپیش اصل چیلنج کون سے ہیں۔ فکر و عمل میں اس کے کردا کو زندہ کرنے کے لیے آغاز کہاں سے ہوا اور زاد راہ کی صورت کیا ہو؟ یہی سوالات اس کتاب کا موضوع ہیں۔(ع۔م)
دین اسلا م کا اصل ماخذ کتاب و سنت ہے، جس کے اہتمام کی خاص تاکید ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سمیت تمام امتیوں کوہر دورمیں کتاب وسنت سے شدید وابستگی کی تلقین کی گئی ہے-نبی کریمﷺنے ان الہامی تعلیمات پر عمل اور ان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کودین کی بقا سے تعبیر کیاہے، اور ان سے بے التفاتی اور کجی کو گمراہی قراردیا، آپ ﷺ نے فرمایا۔میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہاہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے، (وہ دو چیزیں ) اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے- لہذا دین کی بقا اور استحکام کتاب وسنت سے تعلق استوار کرنے ہی میں ہے،اسلام کے ابتدائی ادوار میں اسلام کے غلبہ اور استحکام کا باعث بھی یہی چیز تھی اور مرور زمانہ کے ساتھ اسلام کا استحکام انہی دو چیزوں سے نتھی ہے،سو جس بھی دور میں اہل اسلام خود کو کتاب وسنت کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لیں گے، عظمت ورفعت ان کا مقدر ٹھہرے گی –نیز مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی تنظیمیں اور تحریکیں بھی وہی مستحکم اور دیرپا ہوتی ہیں جن کی بنیاد الہامی تعلیمات پر ہو اور منہج میں سلف کے فہ...
اخروی نجات ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے جو صرف اور صرف توحید خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ جبکہ مشرکانہ عقائد واعمال انسان کو تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکوں کے لیے وعید سنائی ہے ’’ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا او اس کے سوا جسے چاہے معاف کردے گا۔‘‘ (النساء:48) لہذا شرک کی الائشوں سے بچنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔اس کے بغیر آخرت کی نجات ممکن ہی نہیں۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علمائے اسلام نےبھی عوام الناس کوتوحید اور شرک کی حقیقت سےآشنا کرنے کےلیے دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خ...