اردو ادب میں ضرب الامثال اور محاورات کے استعمال کی اہمیت بڑی واضح ہے۔ان سے کسی قوم کی بنیادی ذہنیت اور اس کی ثقافت فکری کا پتہ چلتا ہے۔اگر ان کے صحیح اور واضح پس منظر اور معانی کا درست علم نہ ہو تو آدمی صحیح مفہوم سے بہت دور بھٹک جاتا ہے۔ضرب الامثال عوامی سطح پر پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں عوامی فطانت سمائی ہوتی ہے اور عوامی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ پھر خواص بھی ان ہی مثلوں اور کہاوتوں کو برتتے ہیں اور اپنا لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ اکثران کے اپنے ماحول یا معاشرے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ نہ صرف امثال بلکہ الفاظ، تلفظ، محاورے وغیرہ کے معاملے میں بھی عوام کے آگے خواص کی زیادہ نہیں چلنے پاتی۔ضرب الامثال بالعموم عوامی ذہانت کی امین ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے صدیوں کی دانش کارفرما ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں زبان کی زینت اور زیور تصور کیا جاتا ہے اور تحریر و تقریر میں رنگا رنگی اور ندرت پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔محاورے اور ضرب المثل میں جو مشترک آہنگ پایا جاتا ہے، وہ اُس دانش، حکمت، دانائی یا اس ذہنی اور فکری استعداد کا وہ قرینہ ہے، جو زند...