شادی انبیائے کرام کی سنت ہے، اللہ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً (الرعد: 38) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ۔‘‘ جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: النِّكاحُ من سنَّتي، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي (صحيح ابن ماجه:1508) ترجمہ’’ نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا، جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے۔ رہا مسئلہ دوسری شادی کاتو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ کثرت سے شادی کیا کرتے تھے، اسلام نے شادی کی حد متعین کی کہ اگر کوئی شادی کرنا چاہے تو چار تک اس کی حد متعین ہے۔ ایک سے زائد شادیاں بیویوں کے درمیان حقوق کی رعایت اور عدل وانصاف سے مشروط ہے ورنہ ایک ہی شادی...