خوف اور ڈر کی ایک علامت ہے۔ ہر چھوٹا یا بڑا زندگی کے کسی موڑ پر اندیشے میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے یہ جسم کے الارم سسٹم کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ کسی خطرے کے لئے خبردار کرتا ہے۔ ہمارا جسم سوچتا ہے کہ اس کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ خطرے سے نپٹا جا ئے یا پھر اس سے دور بھاگا جائے۔ اس سے پسینے کی زیادتی یا دل کی دھڑکن تیز ہو سکتی ہے۔جب بچے بڑے ہو رہےہوتے ہیں تو کچھ اندیشے تو نارمل ہوتے ہیں اور وہ گزر جاتے ہیں۔ بچے یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کسی ناواقف کے حوالے کیا جائے۔ نومولود کو اگر اندھیرے میں چھوڑ دیا جائے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ خوف اور اندیشے نارمل ہیں اور عام طور پر چند مہینوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ زیرنظر کتاب’’بچوں میں خوف اسباب، علامات،تدارک کی تجاویز‘‘ فوزیہ عباس کی تصنیف ہے۔فاضل مصنف نےاس کتاب میں ان انتہائی صورتوں اور عوامل کا اختصار کر کےساتھ ذکر کیا گیا ہےجو بچوں میں خوف کا سبب بنتی ہیں اور ان کی ذہنی وجسمانی اور جذباتی ونفسیاتی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔(م۔ا)