منطق اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعےمعلوم حقائق سے نامعلوم کی طرف پہنچاجاتاہے۔ یہ ایک فن بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعے گفتگوکے دوران مناظرہ کےآداب اور اصول متعین کیے جاتے ہیں۔منطق کو یونانیوں نےمرتب کیا اس فن کا آغاز اور ارتقا ارسطو سے ہوا۔ پھریہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا انہوں نے اس میں قابل قدر اضافےکیے۔ اس کے بعد اہل یورپ نے اس میں اضافہ جات کیے ۔منطق کو تمام زبانوںمیں لکھاگیا۔تاہم یہ ایک مشکل فن ہے اس لئے کتابوں کے اندر بھی اس کی پیچیدگی سامنےآتی تھی۔ اساتذ کے بغیراس فن کا حصول ناممکن سا لگتا تھا۔ جناب کرامت حسین صاحب نے اس فن کی پچیدگی دورکرنےکےلیے یہ آسان ترین کتاب لکھی۔ یہ کتاب پہلے انگلش میں لکھی گئی پھر اردو میں بھی مصنف نے اس کو خود ہی رقم کیا۔ اگرچہ مصنف کے پیش نظر ایف ۔اےکےطلباکی علمی وفنی ضرورت پورا کرنا مقصود تھا۔ تاہم پھربھی اس کتاب میں اس علم کے متعلق اس قدر صراحت آچکی ہے کہ ایک طالب کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ دور جدید میں منطق کو طریق استدلال کے پیش نظر دو طرح تقسیم کیاگیاہے۔ ایک استخراجی اور دوسری استقرائی۔جس میں سے استقرائی سائنس کی بنیاد ہے جبکہ استخراجی بحث واستدلال کےعمومی اصول ہیں۔زیرنظرکتاب استقرائی ہے۔ (ع۔ح)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
پہلا باب منطبق استقرائیہ کی نوعیت اور فائدہ |
|
1 |
دوسرا باب استقراء کی قسمیں |
|
15 |
تیسرا باب تعمیم |
|
23 |
چوتھا باب منطق استقرائیہ کی بنیادیں |
|
27 |
پانچواں باب منطق استقرائیہ کی مادی بنیادی |
|
29 |
چھٹا باب منطق استقرائیہ کی صوری بنیادیں |
|
47 |
ساتواں باب منطق استقرائیہ کی صوری بنیادیں(یکسانی فطرت) |
|
70 |
آٹھواں باب استقرائے ناقص |
|
86 |
نواں باب مفروضہ |
|
106 |
دسواں باب قانون قدرت |
|
124 |
گیاہواں باب توجیہہ |
|
135 |
بارہواں باب اصطفاف یا جماعت بندی |
|
149 |
تیرہواں باب منطق استقرائیہ کے مغالطے |
|
166 |