وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنیٰ ہیں کہ’’کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو۔ معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سےقرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اسی طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ۔اوروجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ تجوید الحروف کی طرح معرفۃ الوقوف بھی ترتیل کا ایک جزء اور اس کا ایک حصہ ہے ۔ زیر نظر ’’مجموعہ رسائل‘‘استاذ القراء قاری ابو الحسن اعظمی صاحب کی تصنیف کردہ تین کتب کا مجموعہ ہے ۔اول رسالہ’’ حسن الاقتداء فی الوقف والابتداء ‘‘ علم وقف سے متعلق ہے ۔ دوسرا رسالہ تین کلمات کلا۔ بلی اورنعم پر وقف سے متعلق امام مکی بن طالب قیسی کے رسالے ’’ اظہار النعم فی الوقف کلا وبلی ونعم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے اور تیسرا رسالہ ’’نثر المرجان فی تعداد آیات القرآن‘‘عدد آیات قرآنیہ سے متعلق ہے ۔(م۔ا)
اس کتاب کی فہرست موجود نہیں