لغوی اعتبار سے کسی چیز کے واقع ہونے کاوقت بتانے کو تاریخ کہتے ہیں ۔علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری فرماتے ہیں کہ ”تاریخ اور توریخ“ دونو ں کے معنیٰ وقت سے آگاہ کرنےکے ہیں ۔اصطلاح میں تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔ بعض حضرات نے اس سے وہ سارے اُمور بھی ملحق کردیے جو بڑے واقعات و حوادث سے متعلق ہوں، جنگوں ، امورِ سلطنت ،تہذیب و تمدن ، حکومتوں کے قیام ، عروج و زوال ، رفاہِ عامہ کے کاموں کی حکایت (وغیرہ) کو بھی تاریخ کہا گیا ہے۔تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، غرض تاریخ اس کائنات کا پس منظر بھی ہے اور پیش منظر بھی، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اس سے آئندہ کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں بهی خوب...