۱۹۶۲ء کی بات ہے جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لا ختم کرتے وقت نئے دستور کی تشکیل وترتیب کے کام کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تو دینی وعوامی حلقوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی اور میں نے بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس جدوجہد میں اس طور پر حصہ لیا تھا کہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں نظام العلماء پاکستان کی دستوری تجاویز پر لوگوں سے دستخط کرائے تھے اور اس مہم میں شریک ہوا تھا۔ تب سے اب تک ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا کارکن چلا آ رہا ہوں، ہر تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہا ہوں اور اب بھی حسب موقع اور حتی الوسع اس کا حصہ ہوں۔ کسی دینی جدوجہد کے نتائج وثمرات تک پہنچنا ہر کارکن کے لیے ضروری نہیں ہوتا، البتہ صحیح رخ پر محنت کرتے رہنا اس کی تگ ودو کا محور ضرور رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس جادۂ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازیں۔...