دین دو باتوں ،فکر وکردار یا عقیدہ وعمل سے تعبیر ہے۔قرآن مجید کی اصطلاح میں ،ایسا عقیدہ جو عمل کی اساس بنے ،کردار وسیرت کی تشکیل کرے اور بجائے خود تخلیقی نوعیت کا حامل ہو ایمان کہلاتا ہے۔اور اگر اس سے زندگی ،عمل اور تخلیق وآفرینش کی نشاط کاریاں چھین لی جائیں تو پھر وہ عقیدہ ہو سکتا ہے ،یا اسلام کا ادنی درجہ بھی اسے کہہ سکتے ہیں،ایمان نہیں۔سمجھ لوکہ مشرق و مغرب یعنی کوئی بھی سمت مقصود نہیں، اصل مقصود تو رضائے ربّ محبوب ہے اور اُس کی بنیادیں یہ ہیں کہ دیکھو کون اللہ پر،یوم آخرت پر،فرشتوں پر،کتاب الہٰی پر اور اللہ کے نبیوں پر ایمان لایا ہے۔بس یہی نیکی ہے اور ایسا ہی نیک بخت، خوش بخت، نیک نصیب ہے۔ یہ تو ہوئے اَجزائے ایمان…ان پانچوں میں سے کسی ایک کا انکار بھی دائرہ اسلام و ایمان سے خارج کر دے گا۔اور کوئی کتنا ہی نیک عمل اور بھلے اَخلاق و کردار والا ہو،ان پانچ بنیادوں میں سے اگر کوئی ایک اس میں نہ ہوگی یعنی ان پانچوں کو اس نے اپنا ایمان و عقیدہ نہ بنایا ہو گا تو اس کے سارے اعمال اکارت جائیں گے…کسی چھوٹے سے مکان کی بنیادیں کچرے اور گھاس کے گٹھوں پر...