قرآن میں ہے’’ اسی طرح ہم نے تم کو میانہ روش بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ اس آیت کے تناظر میں اہل حدیث فکر کے حاملین کا یہ کہنا ہے کہ ہم حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔عقائد ، عبادات اور معاملات وغیرہ میں کسی بھی پہلو سے افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں۔حضرات صحابہ کرام اور سلف صالحین کا یہی منہج اور مسلک تھا۔جس طرح اسلام باقی تمام مذاہب و ادیان کےمقابلے میں وسط و اعتدال پر مبنی ہے اسی طرح صحابہ کرام ؓ و سلف تمام فرق کےمقابلے میں اعتدال و وسط کے پیروکار ہیں۔مثلا خوارج اور روافض کے مقابلہ میں صحابہ کرام ؓ کے بارےمیں انہی کا موقف اعتدال ، میانہ روی کا آئینہ دار ہے۔خوارج، معتزلہ اور مرجئہ کے مابین مسلہ وعدہ و وعید کے بارے میں سلف کا موقف ہی معتدل و وسط ہے۔قدریہ اور جبریہ کے مابین تقدیر میں وسط پہلو سلف ہی کا ہے۔جہمیہ معطلہ اور مشبہ کےمابین مسلہ صفات باری تعالیٰ میں وسط مسلک سلف ہی کا ہے۔ نہ ان کے ظاہریت ہے نہ تقلید جامد، نہ جمود ہے نہ ہی آزاد خیالی، نہ رہبانیت ہے اور نہ ہی حیلہ سازی۔فکر اہل حدیث ک...
صحیح احادیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کا قیام بالعموم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین رات جو نماز پڑھائی وہ گیارہ رکعات ہی تھیں ۔ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینے کے قاریوں کو گیارہ رکعات پڑہانے کا حکم دیا تھا ۔ سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں۔ زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’ مسنون رکعات تراویح اور اکابر علماء احناف ‘‘محقق و مصنف کتب کثیرہ معروف واعظ و خطیب مولانا ابوالحسن عبد المنان الراسخ حفظہ اللہ کی محققانہ و منصفانہ تحریر ہے موصوف نے اس مختصر کتابچہ میں مسنون رکعات تراویح کے متعلق تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مسنون نماز تراویح کی تعداد صرف اور صرف آٹھ ہے اور بیس رکعات والی تمام روایات حد درجہ ضعیف، منکر اور ناقابل استدلال ہیں ۔ ( م ۔ ا)...