دین اسلام کے فروغ کے لئےجدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ زیر نظر تحریر" لاوڈ سپیکر اور نماز " آ ج سے پچھتر سال قبل ۱۹۴۰ ء میں اس وقت شائع ہوئی جب لاوڈ سپیکر اور ریڈیو نیا نیا ایجاد ہو کر عام استعمال میں آیا،اور اسے نماز ،جمعہ اور عیدین میں استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔لاوڈ سپیکر ایک جدید ایجاد تھی ،جس کے نماز میں جائز وناجائز اور استعمال یا عدم استعمال کے بارے میں اہل علم نے غور وفکر کرنا شروع کیا تو مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے۔بعض اس کے مطلقا استعما ل کے قائل تھے تو بعض مطلقا حرمت کے علمبردارتھےاور اسے آلہ لہو ولعب قرار دے رہے تھے۔اہل علم کے اس شدید اختلاف کو دیکھ کر عامۃ الناس حیران وپریشان ہوگئے کہ اب اس کا کیا حل نکالا جائے۔یہ بحث اس زمانے میں سب سے زیادہ بنگلور میں اٹھی ۔چنانچہ اہل بنگلور نے ایک استفتاء معروف علماء کرام کےنام بھیجا ،اور ان سے فتوی طلب کیا۔جن علماء کی طرف یہ مراسلہ بھیجا گیا ان میں سے ایک مراسلہ مدیر تنظیم محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے نام روپڑ آیا۔آپ نے مک...
دین اسلام کے فروغ کے لئےجدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔زیر نظر تحریر" لاوڈ سپیکر اور نماز " آ ج سے پچھتر سال قبل ۱۹۴۰ ء میں اس وقت شائع ہوئی جب لاوڈ سپیکر اور ریڈیو نیا نیا ایجاد ہو کر عام استعمال میں آیا،اور اسے نماز ،جمعہ اور عیدین میں استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔لاوڈ سپیکر ایک جدید ایجاد تھی ،جس کے نماز میں جائز وناجائز اور استعمال یا عدم استعمال کے بارے میں اہل علم نے غور وفکر کرنا شروع کیا تو مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے۔بعض اس کے مطلقا استعما ل کے قائل تھے تو بعض مطلقا حرمت کے علمبردارتھےاور اسے آلہ لہو ولعب قرار دے رہے تھے۔اہل علم کے اس شدید اختلاف کو دیکھ کر عامۃ الناس حیران وپریشان ہوگئے کہ اب اس کا کیا حل نکالا جائے۔یہ بحث اس زمانے میں سب سے زیادہ بنگلور میں اٹھی ۔چنانچہ اہل بنگلور نے ایک استفتاء معروف علماء کرام کےنام بھیجا ،اور ان سے فتوی طلب کیا۔جن علماء کی طرف یہ مراسلہ بھیجا گیا ان میں سے ایک مراسلہ مدیر تنظیم محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے نام روپڑ آیا۔آپ نے مک...